” المیہ”

بچپن میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ لوہے کے ہاتھوں سے کھانا کھا ئیں گے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانا معیوب سمجھا جائے گا آج دیکھیں تو معززین کے معیار کو ناپنے کے لئے یہ آلہ بنیادی چیز ہے کہ کون کتنے ماہرانہ طریقے سےکھانے میں چمچ اور چھری کانٹے کا استعمال کرتا ہے۔اسی طرح یہ بات بھی بزرگوں سے سنتے تھے اور اُن کو توبہ کرتے دیکھتے تھے کہ اے اللہ ایسا زمانہ آنے سے پہلے ہمیں اِس دنیا سے لے جانا اُن سے سنتے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ ہر گھر کے اندر طوائفیں رقص کریں گی اور امراء وغرباء شوق سے اُنھیں بلائیں گے۔اور آج زمانہ اپنی تاریخ کے الفاظ کو سچ ثابت کر رہا ہے ہر گھر میں ٹیلی ویژن موجود ہے چاہے کوئی روٹی،کپڑا،مکان جیسی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کر سکتا ہو لیکن ٹیلی ویژن کو اپنی بنیادی ضروریات میں شامل کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھتا ہے۔اور حقیقت میں یہی ٹیلی ویژن ہر گھر میں برہنہ عورتیں کھلے عام دکھا رہا ہے ہر گھر میں یہ عورتیں ایمان لوٹنے سرِعام چلی آرہی ہیں۔اوراپنے لٹنے کا انتظام ہم خود کر رہے ہیں۔بزرگ بچوں کو شر اور خیر کا فرق سمجھاتے ہوئے فرشتوں کو خیر کا سردار اور شیطان کو شر کا باوا بتاتے تھے شیطان اور اُس کی طاقتوں کو گناہ ِکبیرا سمجھا جاتا تھا۔لیکن اب کسی اخبار کو اُٹھا کر دیکھ لیں،کسی چوراہے پر لگے سائن بورڈ کو دیکھ لیں یا کسی دیوار پر دیکھنا چاہیں تو بھی شیطان کا پتہ مل جائے گا ٹیلی ویژن پر باقاعدہ منادی ہو رہی ہوتی ہے
"طلاق کروانی ہو یا رکوانی ہو،کالا علم سفلی علم کے ذریعے کسی کو بھی اپنا بنائیں کام نہ ہونے کی صورت میں پیسے واپس اِدھر کال،اُدھر مال،اور پھر حال آپ کی پسند کا۔محبوب آپکے قدموں میں(جادوگر بابا دریال)۔

محبوب اورپھر قدموں میں؟محبوب کو تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں وہ تو پلکوں پر بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے قدموں میں تو جوتا ہوتا ہے۔یہ کیسی محبت ہے جس میں محبت کا دعویٰ کریں اور چاہیں کے مرضی بھی ہماری چلے؟محبت تو محبوب کو آنکھوں کا تارا بناتی ہے قدموں میں تو نہیں رولتی۔محبت میں تو محبوب کو عرش پر بلا کر اپنے سامنے بٹھایا گیا تھا قدموں میں لانے کا ذکر تو کہیں بھی نہیں ملتا۔محبت کو تو اعزاز کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔محبت کے تقاضے کیسے بدل سکتے ہیں؟ لیکن جو آنکھ کو کھلا چھوڑ دیتا ہے اُس کا غم طویل ہو جاتا ہے۔

اعتراض ٹیکنالوجی پر نہیں سوچ پر ہے جس کا استعمال ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔شیطان یا شر باہر نہیں ہے اندر ہے سب کچھ اندر ہے اگر ہم کسی چھوٹے بچے کو بلی یا کتے سے ڈرائیں وہ ڈر جائے گا اوررونے لگے گا لیکن اگر ایسا ہی کسی بڑے کے ساتھ کریں وہ ہماری اس حرکت کو بچپنے کا نام دے گا بلی کا ڈر بچے کے لیے مختص نہیں بلکہ اُس کے اندر سے جڑا ہوا ہے۔جنت،جہنم کہیں نہیں ہیں ہمارے اندر ہیں۔ہم اگر اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیں تو وہ خوشی ہمیں جنت کے اعلیٰ باغات میں لے جائے گی اور اگر ہمیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے تو یہی چیز ہمیں جہنم کی آخری وادی میں پہنچا دے گی جنت یا جہنم میں جانے کے لیے ہمیں مرنے کی ضرورت نہیں سب کچھ اندر ہے سب سوچ پر منحصر ہے۔اِسی لیے اقبال رح فرماتے ہیں.
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ ِزندگی ”

سوچ کا شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کا سوچ پر۔خوراک جتنی سادہ ہو گی خیالات بھی اُتنے ہی سادہ ہوں گے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ہر سوال اور اُس سوال کے جواب جانتے ہیں بس اُس پر عمل پیرا ہونا مشکل ترین امر ہے پہلا قطرہ بننا بہت مشکل ہے اور قائد بلکہ عظیم قائد وہی ہوتا ہے جو پہلا قطرہ بنتا ہے کیونکہ پہلا قطرہ راستے اور منزل کا تعین کر تا ہے وہ "لا "کی تمام منازل طے کر چکا ہوتا ہے باقی زمانہ تو اُسکی تقلید میں آسانی سے چلتا رہتا ہے۔اللہ پاک ہمیں پہلا قطرہ بننے کا شرف عطاء فرمائیں(آمین)۔

"اُٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی،نہ محبت،نہ معرفت،نہ نگاہ ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے