آپریشن رد الفساداوراہداف کا تعین

آپریشن ضرب عضب کے بعدآپریشن ’’ردالفساد ‘‘ کے اعلان نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے قوم کے محافظ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہی ۔رد الفساد دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن مرحلے کا نام ہے ۔جنرل راحیل شریف بلا شبہ آپریشن ضرب عضب کے ہیرو تھے اورانہوں نے اس آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے انتھک جدوجہد لڑی ۔ اگلے مورچوں پر ان کی موجودگی سے فورسز کے مورال بھی ہمیشہ بلند رہے ۔کمان میں تبدیلی کے بعد نئے آرمی چیف کو جن چیلنجز کا سامان تھا ان میں سرفہرست ضرب عضب آپریشن کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا ۔ ضرب عضب کے دوران ہمارے جوانوں نے انسانی عزم ہمت استقلال بہادری اور قربانی کی ایک ایسی لازوال داستانیں رقم کی ہیں جو ہماری تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی ۔

ضرب عضب کے دوران ساڑھے تین ہزار دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس جنگ میں پاک فوج کے 490 افسر اور جوان شہید ہوئے 4302 کلو میٹر علاقہ دہشتگردوں سے کلیئر کرایا گیا ۔شمالی وزیرستان ایک نوگو ایریا تھا آپریشن کے دوران یہاں سے 253 ٹن بارودی مواد برآمد کیا گیا علاقہ سے 7500 بارودی سرنگیں بنانے والی فیکٹریاں برآمد کی گئیں۔ ضرب عضب کی اہم کامیابی ان علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا جہاں دہشت گرد مختلف افراد کو اغواء برائے تاوان کے لیے لاتے اور وصولی کے بعد انہیں رہا کر دیا جاتا ۔ اس تاوان کی رقم سے ہی دہشت گردی کے اسباب کو جمع کیا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز خاتمہ کے لیے ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن شروع کیا گیا ۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے وہاں بھی دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں بارہ سو دہشتگردوں کو شکنجے میں جکڑا گیا جس میں اکثریت مارے گئے جبکہ جیلوں میں اپنے اعما ل کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ضرب عضب کا آخری مرحلہ فاٹا کے علاقے میں متاثرین علاقہ کی دوبارہ آباد کاری ہے جو باجود کافی مسائل کے جاری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ اور پاکستان میں امن کے لیے سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ ان کی قربانیوں کا نعم البدل تو شاید نہیں ہو سکتا لیکن حکومت وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کو دوبارہ آباد کاری کے لیے ہر وہ سہولت فراہم کرے جو ان کا حق ہے اور ان رکاوٹوں کو دور کرے جن کی وجہ سے مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔

ان ساری کامیابیوں کے بعد آپریشن ردالفساد کے اعلان نے ایک تاثریہ بھی پیدا کیا کہ شاید ضرب عضب ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے ایک نئے نام سے آپریشن کا آغاز کیا جا رہاہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے آخری مراحل کے بعد حتمی آپریشن کا جاری ہونا بھی بہت ضروری تھا تاہم اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اہداف کا تعین پہلے سے کیا جائے ۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پالیسی ساز وں نے اس آپریشن کے لیے اہداف اور اس کے حصول کا طریقہ کار وضع کرنے کے بعد ہی اس کا اعلان کیا ہو گا تاہم بہت ساری سامنے کی باتیں ہیں جن کو مدنظر رکھنا اس آپریشن کی کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس میں پہلا مسئلہ تو نیشنل ایکشن پلان کا ہے ۔ اس نیشنل ایکشن پلان پر سب نے اتفاق کیا تھا لیکن پولیس کے روایتی انداز اور نامناسب تربیت کی وجہ سے شاید نیشنل ایکشن پلان پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔ اس میں صرف پولیس کا روایتی اندازکا ہی قصور نہیں بلکہ سیاستدانوں کا روایتی طرز عمل بھی ہے ۔ پانامہ کیس کے بعد میڈیا سمیت ہر شعبہ کی توجہ دہشت گردی سے ہٹ کر اس کیس کی جانب ہونے سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا ۔

ایک اور اہم نکتہ جس پر مذہبی طبقے کی جانب سے صدائے احتجاج بھی بلند کی گئی کہ دہشت گردی کو صرف مذہب سے منسوب کر دیا گیا ۔اس نکتہ سے سب سے ذیادہ فائدہ ان سہولت کاروں کو ہوا جو دہشت گردی کے لیے مختلف شکلوں میں شہروں میں موجود تھے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کا استحصال ایک پرانی روایت رہی ہے لیکن اگر حکومت چاہتی تو مذہبی طبقے کو اعتماد میں لے کر اپنے ہاتھ مضبوط کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے حکومت نے پانامہ کیس میں تو مذہبی طبقے کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا لیکن دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے مذہبی طبقے کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا گیا ۔مذہب اس ملک کی طاقت تھی جسے ہماری اشرافیہ نے روایتی ہٹ دھرمی سے کمزوری میں بدلناچاہا۔اسی کو دیکھتے ہوئے دہشت گردوں کے سرپرستوں نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ بہت حد تک کامیاب نظر آتے دکھائی دیتے ہیں ایک تو مذہبی طبقے کو حکومت کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا اور دوسری طرف یہ بھی ثابت کرنے کی کو شش کی کہ دہشت گردی کی اصل بنیاد مذہب ہے ۔تکفیر کے فتنہ کو ہوا دے کر فرقہ وارانہ عناصر کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا اور اس کے نتیجے میں دشمن کا تیسرا ہاتھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف رہا۔

دہشت گردوں کی معاونت دو طرح کے عناصر کر رہے ہیں ۔اول اندرونی سہولت کار ہیں جو مختلف بھیس میں موجود ہیں ان میں بہت سے لوگ مختلف سیاسی جماعتوں ، مذہبی طبقوں ، تجارتی مارکیٹوں یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کے شعبہ جات سے منسلک ہو سکتے ہیں ۔دہشت گردوں کی نہ کوئی جماعت ہوتی ہے ،کوئی مسلک ہوتا ہے نہ ہی کوئی شعبہ ہوتا ہے ۔اس لیے بلاتفریق مسلک و مذہب اورسیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر آپریشن ہونا چاہیے ۔ کرپشن وہ راستہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے یہ سہو لت کار جگہ بناتے ہیں ۔ راحیل شریف نے ایک بیانیہ قوم کے سامنے رکھاتھا کہ دہشت گردی اور کرپشن آپشن میں جڑے ہوئے ہیں یہ حقائق پر مبنی بیانیہ تھا ۔تاہم یہ بھی نظر آرہا ہے کہ راحیل شریف کے بعد اس بیانیے کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اگر اس بیانیہ کو تبدیل کرنے میں کرپٹ عناصر کامیاب ہو گئے تو دہشت گردی کے خلاف ردالفساد آپریشن کے بعد بھی دہشت گردی کے واقعات کو روکنا ناممکن ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف دہشت گردوں کے اندرونی سرپرست ہیں ۔ ہماری فورسز کی تمام تر توجہ اندرونی عناصر کے خلاف رہی ، اگرچہ بہت حد تک بیرونی عناصر کی نشاندہی بھی ہوتی رہی تاہم بیرونی سرپرستوں کی سرکوبی کے لیے ضروری تھا کہ حکومتی ذمہ داران اپنی خارجہ پالیسی کا قبلہ درست کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نظر نہیں آرہا ۔ یہ المیہ ہے کہ ہمیں تین اطراف سے مسلسل گرم ہوا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ بھارت اور افغانستان تو کھلے بندوں دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں ۔تاہم کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد یہ طے ہو چکا ہے کہ ایران کی سرحد کی جانب سے بھی ہمیں اطمینان نہیں کر نا چاہیے۔ پاک ایران سرحد پر کبھی کبھی ہلکی پھلکی جھڑپیں اور بعض اوقات الزامات کے باوجود خطرہ اس حد تک نہیں تھا تاہم گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے کے بعد چاہ بہار بندرگاہ پر بھارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا اور یہیں سے بھارت کو راستہ بھی مل گیا ۔ ایران بھارت کا 2001کا دفاعی معاہدہ بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا ۔ اگرچہ ایران کے ساتھ مخاصمت اس حد تک نہیں ہے تاہم ہر ملک اپنی سرحدوں پر موجود خطرات سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا سو پاکستان کو بھی اس حوالے سے ایران پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ یہ اعتماد دلائے کہ اس کی سرحد پرسے ان کے خلاف مزید کوئی کلبھوشن داخل نہیں ہو گا۔

عالمی سطح پرہم دہشت گردوں کے بیرونی سرپرستوں کے خلاف کوئی لائن آف ایکشن طے نہیں کر پائے اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن کشمیر میں جاری مسلسل بھارتی دہشت گردی اور آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد کے ساتھ بھارتی قونصل خانوں ، افغانستان میں موجود پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف ہم دنیا کو واضح پیغام دینے میں ناکام رہے ۔ یہی نہیں بلکہ یہ سامنے آنے کے بعد کہ دہشت گردوں کی جس ای میل سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے وہ بھارت سے آپریٹ کی جاتی ہے صرف ایک دن بعد ہمارے وزیر اعظم یہ بیان دیتے ہیں کہ انہوں نے بھارت دوستی کی بنیاد پر مینڈیٹ حاصل کیا ہے اور اس کے محض ایک دن بعدبھارتی وزیر اعظم نے ٹرین حادثے میں پاکستان کو ذمہ دار قرار دے دیا ۔

پاکستان پاک زمین کانام ہے اس کی بنیادوں میں شہداء کا پاکیزہ لہو ہے اس کے امن کے لیے قربانیاں دینے والوں میں پاک فوج کے وہ جوان سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنے پاکیزہ لہو کا نذرانہ پیش کیا پولیس اور دوسرے اداروں کے جوان بھی اس کامیابی میں شریک ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ان سب نے اس بات کو ایک بار پھر سچ کردکھایا کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی ہے۔ سوشہدا کے اس خون کو رائیگاں مت جانے دیں ۔فسادیوں سے ارض پاک کو پاک کرنے کے لیے اہداف کو درست کیجیے اندرونی و بیرونی عناصر کے خلاف درست حکمت عملی اپنایئے بے شک اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا اور وہ وقت دور نہیں جب دہشت گردی کو جڑوں سے اکھیڑ دیا جائے گا اور یہ پاک زمین فسادیوں کے وجود سے پاک ہو جائے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے