سندھ میں عورت کیسے رہ رہی ہے!

سندھ جو امن کی دھرتی کہلاتی ہے۔ یہاں عورت کا مرتبہ اونچا ہے۔ ہمارے یہاں سندھی میں عورت کو سات قرآن کے مانند سمجھا جاتا ہے، قرآن اور عورت دونوں کی طرف لوگوں کے رویے بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔

یہ ساری باتیں اور قصے ہیں جو بولے جاتے ہیں۔ اب سندھ نہ امن کی دھرتی رہی ہے اور نہ عورت کو ایسا مقام حاصل ہے۔

جیسے کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے، اس کو سات کپڑوں میں باندھ کہ کسی اونچی جگہ رکھا جاتا ہے اور جس کو پڑھنا دور کی بات اٹھاتے بھی تب ہیں جب کسی برادری والے دوسری برادری کے سات لوگ ماردیتے ہیں۔

بالکل اسی طرح عورت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ جس کو پردوں میں اوڑھ کہ گھر میں بند کر کے کہتے ہیں کہ عورت ہماری عزت ہے، عورت ہماری غیرت اور مان سمان ہے وغیرہ وغیرہ۔

مگر دیکھا جائے تو عورت کو عزت اور مان سمان تب تک سمجھتے ہیں جب تک وہ گھر کے اندر بند ہوتی ہے۔ اور وہ لوگ ایسے سمجھتے ہیں کہ جب عورت گھر سے باہر نکلی تو ان لوگوں کی غیرت کو ٹھینس پہنچے گی۔ اور وہ بے غیرت کہلائں گے۔

ہمارے سماج میں عورت کو عزت کی علامت تو بنائی جاتی ہے اور اس کو سات قرآن بھی کہتے ہیں، مگر جب بھی مفادپرستی کا عنصر آ جاتا ہے یا کسی سے دشمنی کا بدلا لینا ہو، تو اسی عزت اور سات قرآن کی مانند عورت کو ایک کموڈٹی بنا کر استعمال کرتے ہیں۔

یہاں پر عورت کو رپیوں کے بدلے بیچا جاتا ہے۔ یہاں پے کسی مخالف سے بدلا لینے کے لیئے عورت کو کاروکاری کر کے مارا جاتا ہے۔ اس کا ایک زندہ مثال ایک واقعہ ہے جو ضلع قمبر شہدادکوٹ کے ہمارے گائوں میں دو سال پہلے رونما ہوا۔ ہوا یہ تھا کہ ہمارا پڑوسی جس کا نام سیف ہے، ان کو ایک بیٹی تھی جو سارے گھر والوں کو بہت پیاری تھی، سارے گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ اور دوسرا پڑوسی علی تھا جو سیف کا دوست تھا۔ ہمارے گائوں میں علی کی سیف کے گھر کے ساتھ ہی دوسرے گھر میں رہنے والے حنان سے دشمنی تھی۔ تو علی نے اپنی دشمنی کا بدلا لینے کیلئے سیف کو ورغلایا اور کہا کہ حنان کے چھوٹے بھائی رضا کا آپ کی بیٹی سے چکر ہے۔

سیف غصے میں لال ہوگیا اور نام نہاد غیرت اس کے سر پر چڑھ گئی۔ سیدھا گھر جا کے بندوق اٹھائی اور بیٹی کو بلایا، صائمہ جیسے ہی اپنے منہ سے جی بابا کہہ کر پہنچی، تو سیف نے صائمہ کے منہ پر فائر کرکے اس کو مار ڈالا۔

یہ ایک نہیں ایسے کئی واقعات ہماری امن پسند سندھ میں رونما ہوتی رہتے ہیں۔ اور میڈیا میں اکا دکا رپورٹ ہوتے ہیں۔

پچھلے سال جون کے مہینے کے آغاز میں ٹھل میں ایک واقعہ پیش آیا، ٹھل کے ایک گائوں نصیر سمیجو میں 9 سالہ بیٹی کو اپنے پاب نے 4 لاکھ روپیوں میں 60 سالا بوڑھے آدمی سے شادی کرالی۔

خبر ملنے پر پولیس نے آ کر بوڑھی دولھے کو پکڑلیا، جبکہ نکاح پڑھانے والے مولوی اور بچی دولہن کا باپ بھاگنے کامیاب ہوگئے تھے۔

یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ کمسن معصوم بیٹی کو اپنے دادا جیسے بڑی عمر والے سے اپنا باپ شادی کرا رہا تھا۔

ٹی وی دیکھتے ہیں یا اخبار پڑھتے ہیں تو کئی خبریں عورتوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ وہ خبریں شہروں، اور گاوں کے اندر عورتوں کی پسند کی شادی کرنا، کسی سے محبت کرنا، کسی سہیلی کی پسند کی شادی میں مدد کرنے کے جرم میں کسی کو آگ لگا گر زندھ جلایا جاتا ہے تو کسی کے منہ پہ تیزاب چھڑکا جاتا ہے تو کسی کو کاروکاری کا لیبل لگا کر موت کی بھینٹ چاڑھا جاتا ہے تو کسی کو چند روپیوں میں بوڑھے آدمی کے حوالے کیا جاتا ہے۔

اس ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو عورتوں کے خلاف تشدد اور کم عمری میں شادی کو روکنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ مگر ان کے باوجود لوگ عورت مخالف کام کرتے وقت ڈرتے نہیں۔

حکومتی رٹ کو چیلنج کرکے قبائلی اور جرگے والے وڈیرے، بھوتار، پنجائتیں، نام نہاد مولوی لوگ بنا کسی خوف کے ایسے فتوے جاری کرکے عورتوں کو زندہ جلانے، بیچنے اور سودا کرنے جیسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔

جب بھی سندھ میں کسی بھی کونے میں انسانیت سے گرے واقعات پیش آتے ہیں تو شاید شاہ بھٹائی، سچل اور سامی بھی تکلیف سے دوچار ہوتے ہوں گے۔
سندھ کی ساری عظیم روایات رو پڑتی ہوں گی۔ یہ کیا ہوگیا ہے ہماری سندھ کو جو ہر آئے دن ایسی وحشت ناک خبریں آ رہیں ہیں۔

یہ وہی سندھ ہے جس میں معصوم بچیوں کو اپنا سگے چچا چوری کا جھوٹا الزام لگا کر سر کے بال کاٹ کر تذلیل کا نشانہ بناتا ہے۔

یہ سندھ ہے جہاں 9 سالہ بچی کی 60 سالا بوڑھے آدمے سے شادی کرائی جاتی ہے۔

یہ وہی سندھ ہے جہاں غیرت کے نام پے بیٹا اپنی ماں، بھائی اپنی بہن اور باپ اپنی بیٹی کو قتل کرتے ہیں مگر ان لوگوں کے ہاتھ نہیں کاپتے۔۔۔!

ہاں یہ وہی سندھ ہے جہاں وڈیرے جرگہ کرکے زیادتی کا شکار معصوم بچی کی عزت کی قیمت 30 من گندم مقرر کرتے ہیں۔

یہ وہی سندھ ہے جہاں پانچ برس کی بچی (لاڑکانہ میں واقعہ ہوا تھا) بھی محفوظ نہیں رہی۔ ہاں یہ وہی سندھ ہے۔۔۔! ہاں یہ وہی سندھ ہے۔۔۔!

کیا اسی سندھ اور اس میں رہنے والوں پہ آنے والی نسلیں فخر کر پائیں گی جو اپنے سماج کے اندر بڑھتی ہوئی بیماری کے خاتمے کیلئے خاموش تماشائی بن کر ہر بات کو بھول جانے کے عادی بن گئے ہیں۔۔۔۔؟

آج عورتوں کا عالمی دن ہے اور اس کا تھیم بھی یہ ہے کہ "تبدیلی کے لئے بہادر بنو” تو آئیے سب مل کر عورتوں کے حقوق کیلئے اکٹھے ہو کر بہادری سے لڑیں تا کہ تبدیلی آ سکے۔ جب تک عورت آزاد نہیں ہوسکتی تب تک ہمارا سماج بھی آزاد نہیں ہوسکتا۔

(مضمون نگار سندھ ٹیلی وزن نیوز میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ سندھی روزنامے میں کالم نگار ہیں. حالات حاضرہ، سیاست، ادب اور فلسفے میں دلچسپی رکھتے ہیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے