دیہی عورت کیسے جیتی ہے؟

اس دنیا کی تمام خواتین حوا کی بیٹیاں ہیں جو آج بھی دنیا کے ہر حصے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی ہیں یا تمام جنگیں ہی انِ کی بدولت ہوئی ہیں اگر ایسا کہا جائے تو غلط تو نہ ہوگا آج اگر آپ قبروستانوں کا روخ کریں تو زیادہ تر میتوں کی تعداد مرد انہ ہی ہوگی زنانہ نہیں نہ جانے ایسا کیوں ہے شاید یہ بات سچ ہے کہ خواتین پورے دن بناؤ سنگار کے ساتھ رہتی ہیں رات سونے سے قبل منہ پر پانی کا چھینٹا مارتی ہیں اور ممکن ہے موت کا فرشتہ کہتا ہو یہ وہ نہیں جسے میں لینے آیا ہوں چلو اس مرد کو ہی ساتھ لے چلتا ہوں۔

یہ سب تو ہوئی مزاح کی باتیں اب حقیقت کی جانب رخُ کرتے ہیں کہ عورت آج بھی مختلف زبانیں ،رنگ و نسل ،تہذیب یافتہ ، بے تہذیب، ثقافتی ،مذہبی و غیر مذہبی اور نہ جانیں کس کس بھیس میں اس دنیا کی مخلوقات میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں میرا مطلب موجود اب تک موجود بھی ہیں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حوا کے دور میں کسی بھی قسم کی جدیدیت میسر نہیں تھی لیکن اُس وقت بھی اُن خواتین نے مردوں کے ساتھ زندگی کے کھٹن مراحل طے کیے جس وجہ سے آج ہم اس دنیا میں آئے یعنی ماں کی بدولت جو اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کر دیتی ہے ۔ لیکن آج کی دنیا میں خواتین کو کیا ہواہے خاص طور پر شہری علاقوں میں رہنے والی مستورات کو جو زرا سے سر درد میں گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں اور اپنا سر کا درد پورے خاندان کے ساتھ اشتراک کرتی ہیں یاد رہے میں عام شہری خواتین کی بات کررہاہوں دیہاتی خواتین انِ سے تھوڑی مختلف ہیں ۔

جب میں نے یہ بات ثابت کرنا چاہی کہ کس طرح کی خواتین ملکوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر تی ہیں تو میر ی نظر میں عجیب و غریب حقائق سامنے آئے جیسا کہ معلوم ہوا گاؤں جی ہاں دیہات میں رہنے والی خواتین شہر میں رہنے والی مستورات سے زیادہ محنت کش اور پختگی ثابت کر رہی تھیں ۔پھرمیں نے ماہر اکانامکز امتیاز پیرزادہ سے معلوم کیاتو انہوں خاص طور پر سندھ کے دہی علاقوں میں کام کرنے والی خواتین کا کردار بتایاکہ وہ کس طرح مشقت سے بھاگتی نہیں بلکہ سستی اور کاہلی ان سے ڈر کر بھاگتی ہے انہوں نے بتایا کہ صبح سویرے دہی خواتین مردوں کیساتھ اٹھ کر کام میں مشغول ہوجاتی ہیں اور کھانے میں برگر ،پیزا یا مرغ مسللم کی فرمائش بھی نہیں کرتی اور سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ 12سے 14گھنٹے کام کرتی ہیں۔

جب میں نے سوچا جو ہمیں آج تک عام سی بات لگتی تھی وہ کتنی خاص ہوگئی ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں کی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں اور اپنے خاتون ہونے کی اہلیت کو بھی استعمال نہیں کرتی جیسا کہ عموماً شہری خواتین کرتی ہیں کہ یہ کام بھی اب میں کروں گی انہیں شہری عورتوں کی طرح آرام یا کسی قسم کی سہولت نہیں چاہیے۔ پھر بھی دہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو کم تر سمجھا جاتا ہے جو غلط سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔

دیہی خواتین کے لیے فلاح کا کوئی خاطر خواہ طریقہ کار موجود نہیں ہے جیسا کہ عورتوں کے حقوق، قانون یا پھر قانون پر عمل درآمد دنیا کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی یہ حکومت کی زمیداری بنتی ہے لیکن حکومت بس اتنا کہنا ہی کافی ہے ملک بھر کی یہ خواتین زراعت میں اپنی بہتر خدمات ادا کررہی ہیں اس وقت سندھ میں ایک کڑوڑ چالیس لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے جس میں سے پچاس لاکھ پینتالیس ہزار ایکڑ زمین پر کاشت کاری کی جاتی ہے اور یہ خواتین ہی انِ زرخیز زمینوں کو مزید زرخیز بناتی ہیں یہ خواتین اس حد تک محنت کرتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں اپنی قدر و قیمت کا احساس ہی نہیں ہوتااگر شہری خاتون اتنا کام کرتی تو کہتی اب تو مجھے مرسیڈز گاڑی چاہیے ۔

یہ بات کافی حد تک صحیح ہے کہ گاؤں کی خاتون شہر میں رہنے والی خواتین سے کہیں زیادہ محنتی ہوتی ہیں ممکن ہے کہ یہ جدید سہولیات کا فقدان ہے اگر انہیں بھی اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ دیا جائے تو سارا دن سوشل میڈیا پر فعال نظر آئیں ۔ دیہاتی خواتین ہر وہ کام کرتی ہیں جو شہری علاقوں کی خاتون کرتے میں جھجھکتی ہیں جیسے کہ صبح سویرے جلدی اٹھنا، مویشیوں کو پالنا اور انکی مکمل نگاہداشت ،پانی اور کھانے کا بندوبست کرنا ،کھتی باڑی کرنا فصل اتارنا اور دیگر سخت جاں کام بھی اس میں شامل ہیں۔

ہاں یہ بات بھی ہے کہ شہر میں رہنے والی خواتین یہ کام کیوں کریں وہ پڑھ لکھ سکتی ہیں اور بہتر مستقبل حاصل کرسکتی ہیں جو ایک حد تک درست بھی ہے ۔ میرا مقصد شہر میں رہنے والی عورت کو کم تر اور گاؤں کی خاتون کو بر تر ثابت کرنانہیں ہے بلکہ یہ مفروضہ ختم کرنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دیہاتی خاتون کو کم عقل اور بے کار سمجھا جاتا ہے لیکن یہ سوچ سچائی پر مبنی نہیں ہے اگر یہی خواتین ترقی یافتہ ملک کی شہری ہوتیں تو شاید یہ کام کرنے کے سا تھ ساتھ خواندہ بھی ہوتی کیونکہ تعلیم سے بہتری ہے اور ہم انہیں عزت و فخر کی نگاہ سے دیکھتے میرا مقصد دوالگ رہن سہن میں رہنے والی مستورات کو لیکر یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلامی نظامِ اقدارمیں بھی مرد اور عورتیں سب برابر ہیں چاہے وہ زندگی گزارنے کے لیے کسی بھی ماحول سے وابستہ ہوں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے