ماریہ‘ میں تمھارے لیے دعاگو ہوں!

یہ آج سے ٹھیک دو سال پہلے کی بات ہے، اپنے ایک عزیز کا بچہ بیمار ہوگیا تھا۔ کچھ عرصے تک علاقے کے ایک نجی اسپتال سے علاج کرواتے رہے مگر بچے کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آرہی تھی۔ اناڑی، قصاب صفت ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں بچے کی صحت بگڑتی چلی گئی۔

ایک دن اباجی بچے کی عیادت کے لیے گئے تو بچے کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ میں گھر سے باہر تھا‘ مجھے کال کر کے کہا: "زویہ کور تہ راشہ” …میں گھر آیا تو حکم ملا کہ رشتہ دار بچے کو صبح سول اسپتال لے کر جانا ہے۔

سرکاری اسپتالوں کے چکر لگانا نہایت تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں اور سال نو کے ابتدا میں جن بلاؤں سے پناہ مانگتا ہوں ان میں سرفہرست اسپتال اور پھر خاص کر سرکاری اسپتال ہیں۔ اباجی کے لہجے میں دکھ اور ہم دردی بھری ہوئی تھی۔ میرے لیے بہانہ کرکے جان چھڑوانا ممکن نہیں رہا تھا۔

اگلے روز سویرے ہم اسپتال میں تھے۔ اوپی ڈی کی پرچی سکون سے ملی، چیک اپ کرنے والے ڈاکٹر بھی توقع سے بڑھ کر اچھے نکلے، بچے کو بیڈ پر لٹا کر تسلی سے چیک کیا، فوری ایڈمٹ کرنے کا کہا اور ایمرجنسی میں بھیج دیا‘ وہاں سے پھر وارڈ میں شفٹ ہوگئے۔
یہ مراحل اللہ کے فضل سے سکون سے طے ہوئے۔ بچے کے ایڈمٹ ہونے کے بعد سکھ کا سانس لیتے ہوئے‘ میں نے گھر کی راہ لی۔ ایک دن گزر گیا۔ دوسرا بھی۔ اچانک‘ بیمار بچے کی بڑی بہن گھر آئی۔ چہرے پر درد اور تشویش کے سائے چھائے ہوئے واضح نظر آتے تھے۔ کہنے لگی کہ اسپتال کے ڈاکٹرز توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

اگلے روز میں اسپتال پہنچ کر سیدھا وارڈ میں چلا گیا۔ بچے کے بیڈ کے پاس اس کی ماں سے صورت حال پوچھ رہا تھا کہ منہ نقاب میں چھپائے ایک دراز قد، بارعب خاتون ڈاکٹر چلی آئی۔ میں کن انکھیوں سے اسے دیکھتا رہا‘ وہ بچوں کا چیک اپ کرتے کرتے ہماری طرف آگئی۔ فائلیں کھول کر دیکھیں اور پھر بچے کو چیک کیا۔ چیک اپ سے فارغ ہوتے ہی میں نے انہیں انتہائی سلیقے سے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ میری باتیں یک سوئی سے سننے لگی۔ میری کتھا سن کر وہ بڑی شائستگی سے بولی: بچے کا بالکل خیال رکھا جارہا ہے البتہ ابھی ٹیسٹ ہوریے ہیں اور رپورٹ سے قبل ہم علاج شروع نہیں کرسکتے۔

یہ انسانوں سے پیار کرنے والی ”ڈاکٹر ماریہ“ تھی۔

ایک ایسی مسیحا جو صرف ہمارے مریض ہی کی نہیں ہر بچے کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی۔ قریباً ایک مہینہ وہ بچہ اسپتال میں رہا۔ ڈاکٹر نما قصابوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے والا بچہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔

گزشتہ روز کسی نے ڈاکٹر ماریہ کی موت کی اطلاع دی تو دم بخود رہ گیا۔ بہت دیر تک سکتے کی کیفیت میں رہا۔ صرف میں ہی نہیں میری بہنیں بھی ان کی موت سے بہت دکھی ہوئیں۔

ڈاکٹر ماریہ سے میرا کوئی رشتہ نہیں تھا مگر وہ انسانوں سے ہم دردی کرنے والی، بگاڑ کی حدوں تک جاتے اس معاشرے ہی کا ایک خوب صورت حصہ تھی۔ وہ ایک بڑی مشکل میں ہمارے کام آئی تھی۔ صرف ہمارے ہی کیا اسپتال میں ایڈمٹ ہر بچے کے والدین کی دعاؤں میں موجود رہی ہوگی۔ دنیا سے اس کی رخصتی کی خبر میرے دل پر بھاری پڑی ہے۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
میرے دل سے صدا اٹھ رہی ہے‘ کہ جب وہ اس بڑے اور خوف ناک دن زمین کا سینہ پھاڑ کر اٹھے‘ تو بہت خوش ہو۔
دوستو‘ کیا آپ میری اس خواہش پر آمین کہہ سکتے ہیں!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے