فاشزم ناپنے کا طریقہ

فاشزم (فسطائیت) کے پس منظر میں سنہ 1998 میں ان کا سیاسی ناول ’جون 2004‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس ناول کی روشنی میں کسی بھی سماج یا ریاست میں فاشزم کی مقدار ناپنے کی نشانیوں کو سنہ 2003 میں نیویارک سے نکلنے والے انٹرنیٹ میگزین ’دی فری انکوائری‘ نے ایک خلاصے کی شکل دی۔ اس خلاصے کا انٹرنیٹ پر بارہا تذکرہ اور اس پر تنقیدی بحث سامنے آتی رہتی ہے۔
آج کل پھر یہ خلاصہ انٹرنیٹ پر تیر رہا ہے۔اس کے مطابق:
فسطائی نظام حب الوطنی کو اندھی قوم پرستی کی شکل دینے کے لیے پرچموں، قومی نغموں، نعروں اور ملبوسات کا بے تحاشا استعمال کرتا ہے تاکہ لوگوں کو صرف ایک ہی بیانیے اور آواز کی جانب رکھ کے ان کا لہو مسلسل گرم رکھا جا سکے۔

دیدہ و نادیدہ دشمنوں کے خوف اور قومی سلامتی خطرے میں ہے کا پرچار مسلسل ہوتا ہے تاکہ عوام کو ریاستی تحفظ اور حب الوطنی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے دستبرداری پر آمادہ کیا جا سکے اور لوگ اذیت رسانی، سرسری سزاؤں، قتل اور قید کے وسیع استعمال کو ایک معمول کا عمل سمجھ کر نظرانداز کر سکیں۔

فاشزم ایک مشترکہ دشمن یا قربانی کے کمزور بکرے پر فوکس کرتا ہے تاکہ لوگ قومی دیوانگی سے سرشار ہو کر مسلسل کنفیوز اور مشکوک رہیں۔ یہ مشترکہ دشمن کوئی نسلی، علاقائی یا مذہبی اقلیت، لبرل، کیمونسٹ، متبادل سماجی و مذہبی بیانیہ، حزبِ اختلاف یا غیر ملکی سازشوں سمیت کوئی بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

عسکریتی رجحان اور عسکری اداروں کی کارکردگی اور کردار کو خصوصی طور پر ابھارا جاتا ہے تاکہ قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ ان کے لیے وقف رہے اور وہ فسطائی نظام کی شان و شوکت اور ہیبت کا اظہاریہ بنے رہیں۔ یوں عام لوگوں کے لیے دیگر بنیادی موضوعات و مسائل کی حیثیت ثانوی یا غیر اہم رہے۔

فسطائیت میں مردانگی کے استعارات و سمبلز پر پورا فوکس ہوتا ہے اور ریاست جنس کی بنیاد پر تقسیمِ کار، جنسی میلانات اور خاندانی زندگی کے محور سمیت ہر عائلی مسئلے میں دخیل ہونے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اپنی بقا کے لیے ایک مضبوط مردانہ معاشرے کے تاثر کو حقیقی ثابت کیا جا سکے۔

میڈیا کا براہِ راست یا اپنے کاسہ لیسوں کے ذریعے بلا واسطہ کنٹرول فسطائیت کی بقا کے لئے لازمی ہے تاکہ متبادل بیانئیہ لوگوں کے ذہن میں سوالات نہ اٹھا سکے اور وہ ریاستی اقدامات کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت سے عاری یا اس صلاحیت کا برملا استعمال کرنے سے خوفزدہ رہیں۔

فسطائی ریاست میں مذہبی سمبلز، اصطلاحات اور بیانیے کو ان کی اصل روح، سیاق و سباق اور انسان دوستی سے قطع نظر فسطائی نظریے اور اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے بلادریغ و مسلسل استعمال کیا جاتا ہے بھلے عوام کی اکثریت ریاستی پالیسی کے برعکس ہی کیوں نہ سوچتی ہو۔

فسطائیت میں تازہ خیالات اور فن کے تخلیقی اظہار و تجربات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایسے جرات مند فن کاروں، اہلِ قلم، ماہرینِ تعلیم و سائنس و فنونِ لطیفہ کو طے شدہ دائرہ عبور کرنے کے بدلے براہِ راست و بلا واسطہ بھگتان، خاموشی، قومی و نظریاتی غداری کے لیبل یا جلا وطنی کی شکل میں قیمت چکانا پڑتی ہے۔

فسطائی ریاست پولیس سٹیٹ بنے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ حتیٰ کہ لوگ رفتہ رفتہ اپنی بنیادی آزادیوں کو ایک اضافی مہربانی کے طور پر لینے لگیں یا بھولتے چلے جائیں اور اسے روزمرہ زندگی کی حقیقت سمجھ کے قبول کر لیں۔

فسطائیت میں کاروبار و اختیار میرٹ سے زیادہ وفاداری اور تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ احتساب بدعنوانی کا نہیں مخالفت کا ہوتا ہے۔ ایک مخصوص ٹولے کے ہاتھ میں پالیسی اور وسائل کے اندھا دھند استعمال کا اختیار مرتکز ہوجاتا ہے اور اس طاقت کو مزید وفاداریاں، خاموشی یا صرفِ نظر خریدنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

فسطائی ریاست میں بھی انتخابی عمل ہوتا ہے مگر متبادل بیانیے اور جماعتوں کے اثرات کو کند رکھنے کے لیے من مانی آئینی ترامیم، امتیازی انتخابی قوانین و حلقہ بندی، عدالتی نظام، ووٹر اور امیدواروں کی اہلیت، کردار کشی، پشت پناہ غنڈہ گردی، تشدد اور منہ بند رکھنے کے لیے تادیبی ریاستی ضابطوں کا رسمی و غیر رسمی استعمال من پسند نتائج کے حصول کی ضمانت قرار پاتا ہے۔
مغرب و مشرق سے قطع نظر آپ جہاں بھی یہ نشانیاں دیکھیں سمجھ لیں کہ وہاں فسطائیت کا راج ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے