65ء کے ہیرو ایم ایم عالم کے آخری تلخ ایام

ایم ایم عالم نڈر تھے، بے باک تھے، جرأت مند اور کھرے تھے لہٰذا ان کی اڑان روکنا بھی مشکل تھا اور زبان بھی ۔ وہ بڑی سے بڑی بات منہ پر دے مارتے تھے، یہ جرأت مندی آہستہ آہستہ اس قومی ہیرو کو نگل گئی، وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے دل برداشتہ تھے،وہ ببانگ دہل کہتے تھے، بنگالیوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہو رہا لیکن ان کے خیالات کو لسانیت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا، وہ 1969ء میں اسٹاف کالج میں تھے لیکن ان کے ’’باغیانہ‘‘ خیالات کی وجہ سے انھیں اسٹاف کالج سے فارغ کر دیا گیا، 1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو ایم ایم عالم کا خاندان ڈھاکا میں تھا، ان کے ساتھیوں کا خیال تھا ، ایم ایم عالم ائیر فورس چھوڑ کر بنگلہ دیش چلے جائیں گے لیکن وہ ایک سچے پاکستانی تھے۔

انھوں نے نہ صرف پاکستان چھوڑنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ اپنے خاندان کو بھی بنگلہ دیش سے پاکستان لے آئے یوں خاندان نے سو سال میں تین ہجرتوں کے دکھ سہے، پہلی ہجرت پٹنہ سے کلکتہ تھی، دوسری ہجرت کلکتہ سے ڈھاکا تھی اور تیسری ہجرت دوسری ہجرت سے محض 26 برس بعد ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان کی طرف تھی،مشرقی پاکستان کے سانحے نے ایم ایم عالم کے ذہن پر دو اثرات مرتب کیے، پہلا اثر ان کی زبان پر ہوا، ان کی زبان کی کڑواہٹ میں اضافہ ہو گیا، وہ پاکستان کے نام پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔

دوسرا اثر ان کے ذہن پر ہوا، وہ مذہبی ہو گئے اور وہ اپنا زیادہ وقت دینی کتابوں اور عبادت کو دینے لگے، جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء لگایا، ایم ایم عالم مارشل لاء کے خلاف تھے، وہ بار بار کہتے تھے، ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا، ہم نے اگر یہ غلطیاں جاری رکھیں تو ہم باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے، وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف تھے، وہ انھیں ایسے ایسے القابات سے نوازتے تھے جو تحریر میں نہیں لائے جا سکتے، خفیہ ادارے ان کی گفتگو ریکارڈ کرتے تھے، 1982ء میں انور شمیم ائیر فورس کے چیف تھے، یہ صدر جنرل ضیاء الحق کے دوست بھی تھے۔

یہ دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے، ائیر مارشل انور شمیم شاندار انسان تھے لیکن وہ اپنی بیگم کے زیر اثر تھے، بیگم صاحبہ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے، ایم ایم عالم ائیر فورس کے میس میں ان الزامات کا ببانگ دہل ذکر کرتے تھے، وہ بار بار کہتے تھے، جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں، خفیہ ادارے نے یہ گفتگو ٹیپ کر کے چیف آف ائیر اسٹاف کو پہنچا دی، انور شمیم یہ ٹیپ لے کر جنرل ضیاء الحق کے پاس چلے گئے۔

جنرل ضیاء الحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کے ہسٹری کے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ایم ایم عالم کو 1982ء میں قبل از وقت ریٹائر کر دیاگیا، وہ اس وقت ائیر کموڈور تھے،ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں، وہ درویش صفت انسان تھے، دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا، شادی انھوں نے کی نہیں تھی لہٰذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائیر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے، وہ ایک کمرے تک محدود تھے، کتابیں تھیں، عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں۔

حکومت کوشش کر کے نوجوان افسروں کو ان سے دور رکھتی تھی لیکن اس کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی جوان افسر ان تک پہنچ جاتا تھا تو اس کے کوائف جمع کر لیے جاتے تھے اور بعد ازاں اس پر خصوصی نظر رکھی جاتی تھی چنانچہ نوجوان افسر بھی ان سے پرہیز کرنے لگے، جنرل ضیاء الحق کے بعد ائیر فورس نے انھیں پنشن اور دیگر مراعات دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا، وہ خوددار انسان تھے، وہ دس دس دن فاقہ کاٹ لیتے تھے لیکن کسی سے شکایت نہیں کرتے تھے، مدت بعد ایک ایسا شخص ائیر چیف بن گیا جس نے ان کی کمان میں کام کیا تھا۔

اس نے ان کے تمام دوستوں کو درمیان میں ڈالا، دو درجن لوگوں نے ان کی منت کی اور یوں وہ ریٹائرمنٹ کی طویل مدت بعد صرف پنشن لینے پر رضا مند ہوئے، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم ایم عالم صاحب نے ان پر بھی تنقید شروع کر دی، وہ فوج کے سیاسی کردار اور کرپشن کو ملک کی تباہی کا اصل ذمے دار قرار دیتے تھے، وہ کہتے تھے، جنرل مشرف اور ان کے ساتھی کرپٹ بھی ہیں اور یہ ہوس اقتدار کے شکار بھی ہیں، یہ لوگ ملک کو تباہ کر دیں گے، خفیہ ادارے پھر ایکٹو ہوئے، ایک بار پھر ان کی گفتگو ٹیپ ہوئی، یہ ٹیپ صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کر دی گئی۔

صدر نے ائیر چیف کو طلب کیا، ٹیپ سنائی اور ان سے کہا، چک لالہ حساس علاقہ ہے، یہ شخص ہماری ناک کے نیچے بیٹھ کر ہمارے خلاف گفتگو کر رہا ہے، اس سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہے، آپ اسے راولپنڈی سے کہیں دور بھجوا دیں، صدر کا حکم تھا چنانچہ ایم ایم عالم صاحب کا سامان باندھا گیا اور انھیں راولپنڈی سے کراچی پہنچا دیا گیا، ان کا اگلا ٹھکانہ فیصل بیس تھا، یہ انتقال تک فیصل بیس میں رہے۔

دسمبر 2012ء میں ان کی طبیعت خراب ہوئی، انھیں نیوی کے اسپتال شفاء میں منتقل کیا گیا، یہ وہاں 18 مارچ 2013ء تک داخل رہے، 18 مارچ کو جب انھوں نے آخری سانس لی تو ان کی شجاعت اور بہادی کے نغمے گانے والوں میں سے کوئی شخص ان کے سرہانے موجود نہیں تھا، وہ پاکستانی تھے، وہ پوری زندگی پاکستان کے لیے لڑتے رہے اور یہ لڑائی لڑتے لڑتے خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔

آج اس عظیم سپاہی کی برسی ہے …

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے