قاری یاسین ’بم بنانے اور خودکش حملوں کا ماہر‘

51 سالہ قاری یاسین کو استاد اسلم نے نام سے بھی جانا جاتا تھا، اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تھا

افغانستان کے شمال مشرق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والوں میں پاکستانی شدت پسند کمانڈر قاری محمد یاسین بھی شامل تھا۔

گزشتہ اتوار کو ہونے والے ڈرون حملے کے بارے میں قاری یاسین کی ہلاکت سے متعلق درخواست پر امریکی عہدیداروں کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

تاہم پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان اور لشکر جھنگوی العالمی نامی تنظیم کے ترجمان نے یاسین کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان کے جنوب مغربی صوبے پکتیکا میں ایک کار کو ڈرون سے نشانہ بنایا، اس گاڑی میں قاری محمد یاسین بھی سفر کر رہا تھا۔

51 سالہ قاری یاسین کو استاد اسلم نے نام سے بھی جانا جاتا تھا، اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تھا اور وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں شامل تھا۔ حکام کے مطابق وہ ملک کے مختلف علاقوں میں خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

قاری یاسین سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بس پر 2009 میں حملے کے علاوہ لاہور ہی میں صوفی بزرگ داتا دربار پر حملوں میں ملوث تھا۔

اس شدت پسند کمانڈر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ خودکش حملہ آوروں کو تربیت فراہم اور دیسی ساخت کے بم بنانے کا ماہر تھا۔

اطلاعات کے مطابق یاسین امجد فاروقی گروپ سے بھی وابستہ رہا۔ امجد فاروقی گروپ 2003 میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں میں بھی ملوث رہا۔

بعد ازاں یاسین پنجابی طالبان کا بھی مرکزی رکن بن گیا۔ پنجابی طالبان القاعدہ برصغیر سے وابستہ تھے اور یہ دہشت گرد گروپ افغانستان میں سرکاری فورسز اور بین الاقوامی افواج کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔

پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی العالمی کے ترجمان علی بن سفیان نے قاری یاسین کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

لشکر جھنگوی العالمی کالعدم پاکستانی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی ہی کی شاخ ہے، اس تنظیم کے افغان طالبان، القاعدہ اور اب داعش کے جنگجوؤں سے رابطے ہیں۔

یہ تنظیم پاکستان اور افغانستان میں کئی بڑے حملوں میں ملوث رہی۔

پاکستانی طالبان کے ایک غیر معروف ترجمان ابی یعقوب کا کہنا ہے کہ قاری یاسین کی موت کا بدلہ لیا جائے اور اُس نے افغانستان میں امریکی فورسز کو ہدف بنانے کی بھی دھمکی دی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے