جمعیت، پشتون طلبہ تنازع

جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پشتون طلبہ ٹکرائو کے واقعے کو دو دن گزر چکے ہیں،سوشل میڈیا پر کئی نئے مباحث در آئے ہیں، کئی آنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ دانش مندی شاید اسی میں تھی کہ میں اس سے پہلو بچا کرنکل جاتا۔ خاص کر اس صورت میں کہ میرے پڑھنے والوں اورفیس بک فرینڈز میں اسلامی جمعیت طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ جمعیت کے سابقون اور حالیہ وابستگان کے ساتھ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والا ایک حلقہ بھی خاکسار کی تحریروں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پشتون سٹوڈنٹس میں بھی میرے قارئین موجود ہیں۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے کی مگر دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب لکھنے والے پر صورتحال کسی حد تک واضح ہوجائے تب اسے پزیرائی یا تنقید کے خوف سے بالاتر ہو کر لکھ ڈالنا چاہیے، دوسرا اس ایشو پر بہت کچھ لکھا گیا،مگر اس میں شدت کا غلبہ تھا۔ جمعیت کے مخالفین نے اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور باقاعدہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر پل پڑے تو دوسری طرف جمعیت کے وابستگان اور محبین اس بڑی تعداد میں متحرک ہوئے ہیں جس کی کوئی مثال قریب میں نہیں ملتی۔ دونوں سائیڈز سے اندھا دھند قسم کی قلم فائرنگ ہوئی اور انتہائی پوزیشنز لی گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک بھی ایسی تحریر نظر نہیں آئی، جس میں انصاف کی جھلک بھی دکھائی دی گئی ہو۔ ٓ

ویسے تو اس کے قوی امکانات ہیں کہ میری تحریر کو ایک طرف یا دونوں اطراف کے لوگ ناانصافی پر مبنی قرار دیں، اسے یکسر مسترد کر دیں ، مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ لکھنے سے پہلے دونوں اطراف کی سوشل میڈیا پر آنے والی تحریریں اور ویڈیوز اچھی طرح دیکھی گئی ہیں۔ جماعت، جمعیت کے سوشل میڈیا سیل کی تمام پوسٹیں دیکھنے، جمعیت کے احباب کی جانب سےموصول ہونے والی ویڈیوز کو دیکھنے، اینٹی جمعیت عناصر کی تحریریں، ان کی جانب سے پوسٹ ہونے والی ویڈیوز کے بغور مشاہدے کے بعد یہ رائے قائم کی گئی۔ پشتون احباب نے بعض ویڈیوز واٹس اپ بھی کیں۔ میں نے ذاتی طور پر فون کرکے واقعے کی کوریج کرنے والے مختلف صحافیوں سے بات کی۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کئی نوجوانوں سے بات کی۔ ماس کمیونکیشن ڈیپارٹمنٹ میں میرے سٹوڈنٹ موجود ہیں، ان سے بھی بات کی۔ جس حد تک تصویر واضح ہوسکی، اس کے بعد ہی اس موضوع پر قلم اٹھایا گیا۔ یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس تنازع کے حوالے سے دو انتہائی مختلف موقف موجود ہیں۔ دونوں خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم بتاتے ہیں، دونوں کیمپس کے حامی اسی موقف کو پورے شدومد سے بیان کررہے ہیں۔ جب ایسی صورتحال ہو تو لکھنے والے کے لئے پوری حتمیت سے بات کرنا آسان نہیں رہتا، پھر گواہوں کی شہادت سے زیادہ ان کی گواہی کے منطقی تجزیے کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی۔

[pullquote] زیادتی کس نے کی؟[/pullquote]

جو شواہد سامنے آئے ، اس کے مطابق اس تنازع کے دونوں فریقوں نے اپنے اپنے انداز میں زیادتی کی ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی خود کو مظلوم نہیں کہہ سکتا۔ اینڈ آف دی ڈے دونوں ہی ظالم بن کر سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کیمپس کے پاس ایسے شواہد یعنی ویڈیوز، گواہی دینے والے لوگ موجود ہیں جو فریق مخالف کے حملے اور ظلم کی تفصیل بیان کر سکتے ہیں۔ جمعیت کے بعض لڑکوں نے پشتون کلچرل ایونٹ پر حملہ کر اسے درہم برہم کیا، پشتون طلبہ پر ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کیا اور کچھ کو زخمی کر کے تیزی سے نکل گئے ۔ جوابی کارروائی میں پشتون طلبہ نے بھی انتہائی اشتعال کا مظاہرہ کیا۔ ان کے جوابی حملے کی زد میں جمعیت کے بعض لڑکے آ گئے، پنجابی محاورے کے مطابق جن کے باقاعدہ کھنے سیک دئیے گئے،جمعیت کا ایک لڑکا شدید زخمی ہو کر ہسپتال پڑا ہے۔ خیر جمعیت کے لڑکوں پر اس جوابی حملے کی کوئی منطق سمجھ آتی تھی، مگر پشتون لڑکوں نے جمعیت طالبات کے پروگرام پر حملہ کر کے صریحاً زیادتی کی۔ انہوں ںے محترمہ ڈاکٹر سمحیہ راحیل قاضی تک کو نہ بخشا، ان پر حملہ کیا، دھکے وغیرہ دئیے، بعض دیگرخواتین مقررین بھی زد میں آ گئیں، سائونڈ سسٹم تباہ کر دیا، آگ لگا دی گئی اور جمعیت کی طالبات کو بمشکل جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ پشتون روایات میں خواتین کے تقدس کی بڑی اہمیت ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے نوجوان پشتون طلبہ نے شدت غیض وغضب میں وہ سب کچھ بھلا ڈالا۔ ظلم کا نشانہ بننے والا اگر جواب میں وہی ہتھیار اٹھا کر ظلم کرنا شروع کر دے تو اس کی اخلاقی برتری ختم ہوجاتی ہے۔ یہی اس معاملے میں پشتون طلبہ کے ساتھ ہوا۔ اگر وہ جمعیت طالبات کے پروگرام پر حملہ نہ کرتے، ایک معروف پشتون گھرانے کی صاحب زادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل کو نشانہ نہ بناتے ، دیگر مہمانوں کو پریشان نہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور تمام تر ہمدردی پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ ہوتی۔

[pullquote] پہل کس نے کی ؟[/pullquote]

اسلامی جمعیت طلبہ کا اپنا موقف ہے، میں پوری حتمیت کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا، البتہ جتنے شواہد میرے علم میں آئے، ان کے مطابق اس زیادتی اور حملے میں پہل جمعیت نے کی ۔ ان کے لڑکے پشتون ایونٹ پر بلاجواز حملہ آور ہوئے ، اس کی کوئی تک، کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں تھا۔ اس ظلم کی مذمت نہ کرنا دراصل ظلم کا حصہ بننا ہے۔ جمعیت کے اس رویے کا کسی بھی صورت دفاع کرنا ممکن نہیں۔ جنہوں نے دفاع کیا وہ ان کا ذاتی فعل ہے، ممکن ہے اپنی معلومات کے مطابق انہیں ایسا کرنا درست لگا ہو، میرے نزدیک یہ صریحاً زیادتی ہوئی ۔ جمعیت نے وہی بلنڈر کیا ہے جو دس سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان پر حملہ کر کے کیا تھا، اگرچہ اس واقعے کی شدت نسبتاً کم ہے اور شائد کچھ عرصے میں یہ کسی کو یاد نہ رہے، مگرجمعیت کی داخلی سطح پر جس کسی نے بھی پشتون کلچرل ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا، اس کی حماقت، عاقبت نااندیشی اور ناسمجھی کو ایک سو اکیس توپوں کی سلامی پیش کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک جمعیت میں اگر احتساب کی روایت موجود ہے تو کم از کم ناظم جامعہ سے استعفا لےلینا چاہیے۔

[pullquote] جمعیت ، پشتون سٹوڈنٹ تصادم کا پس منظر [/pullquote]

اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کی سب سے موثر قوت ہے، برسوں بلکہ عشروں سے وہ یہاں پر راج کر رہی ہے اور طویل عرصے سے جمعیت کو جامعہ پنجاب میں کسی بھی دوسری تنظیم کی جانب سے مسابقت یا مزاحمت کا سامنا بھی نہیں تھا۔ پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن بھی اس طرح کی باقاعدہ طلبہ تنظیم یا نظریاتی قوت نہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے بلوچستان کے طلبہ کے لئے جو پیکیج انائونس کئے گئے ، ان کے تحت جامعہ پنجاب کے تمام شعبوں میں بلوچستان سے آنے والے طلبہ کے لئے کوٹہ رکھا گیا ہے۔ ان میں بلوچ سٹوڈنٹ بھی ہیں، مگر بلوچستان سے زیادہ تر پشتون طلبہ ہی آتے ہیں، ان کے لئے نہ صرف فیس میں غیر معمولی استثنا ہے بلکہ انہیں سکالرشپ بھی دئیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے آٹھ نو برسوں میں جامعہ پنجاب کو اپنی تاریخ کے بدترین وائس چانسلر کو بھگتنا پڑا۔ خالصتاً سیاسی بنیاد پر آنے والے سابق وی سی مجاہد کامران کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ مرتب کی جا سکتی ہے۔ موصوف نے جامعہ پنجاب کا ہر حوالے سے بیڑا غرق کیا۔ تمام ڈیپارٹمنٹ اپنی کمترین کارکردگی تک جا پہنچے۔ کرپشن کا دور دورہ رہا۔ اپنے مخالف پروفیسروں کا ناطقہ بند کئے رکھا۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز جیسے شریف النفس پروفیسر کی موت کا ذمہ دار بھی ڈاکٹر مجاہد کامران ہی تھا۔ اسی وائس چانسلر کو چونکہ جمعیت نے ٹف ٹائم دیا، اس لئے جمعیت کی قوت کمزور کرنے کے لئے مجاہد کامران کے کئی اقدامات کئے۔ ان میں سے ایک پشتون، بلوچ سٹوڈنٹ کو جمعیت کے خلاف کھڑا کرنا بھی شامل ہے۔ پانچ سات سال پہلے تک جامعہ پنجاب میں کسی بھی نوعیت کی پشتون سٹوڈنٹ فیڈریشن موجود نہیں تھی۔ وی سی کی حمایت اور تائید سے یہ مجتمع ہوئے، ان کی بھرپور سرپرستی کی گئی، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے انہیں سہولیات ملیں اور باقاعدہ طور پر جمعیت کے خلاف مورچہ بند ہونے کی ترغیب دی گئی۔ جو بیج مجاہد کامران نےبوئے، اس کی فصل آج موجودہ وی سی کو کاٹنا پڑ رہی ہے۔ طلبہ میں اس نوعیت کا تصادم ہونا کسی بھی یونیورسٹی کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ جمعیت کے ساتھ ڈیل کرنے کے اور بھی کئی طریقے تھے، طلبہ سے لشکر کھڑے کرنے سے خطرناک حرکت اور کوئی نہیں ہوسکتی، مگر بدقسمتی سے ایسا ہی ہوتا رہا۔ اکیس مارچ کے ٹکرائو کو سمجھنے کے لئے اس پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔

[pullquote] حملہ کیوں ہوا؟[/pullquote]

اس کا درست جواب تو حملہ آور ہی دے سکتے ہیں :)۔ اس کی وجہ سمجھنامگر زیادہ مشکل نہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کی سب سےموثر قوت ہے۔ برسوں بلکہ عشروں سے یہ یہاں پر راج کرتے آئے ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے جامعہ میں جمعیت کو کسی بھی جانب سے کوئی مزاحمت پیش نہیں آئی ۔ اس پس منظر میں جمعیت دشمن وائس چانسلر مجاہد کامران کی جانب سے ایک تنظیم کی سرپرستی کو جمعیت کے’’عقابوں‘‘کے لئے ہضم کرنا مشکل رہا ہے۔ سال ڈیڑھ پہلے بھی ایک ٹکرائو ہوا تھا۔ اب پشتون کلچرل ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کی تجویز پیش کرنے والے جمعیت کے نادان دوست ہی ہیں۔ دس سال پہلے عمران خان پر حملہ کرنے کی حماقت کی گئی، اس وقت بھی جمعیت کا خیال تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں آنے سے پہلے عمران خان کو ان سے اجازت لینی چاہیے، ظاہر ہے یہ بچکانہ ضد تھی۔ جامعہ پنجاب جمعیت یا کسی بھی تنظیم کی جاگیر نہیں۔ طلبہ تنظیم کو اپنی تمام تر توجہ صرف طلبہ کے مسائل کے حل پر مرکوز رکھنی چاہیے، ہاسٹلوں پر قبضے اور کسی بھی قسم کی سیاسی مخالفت کو برداشت نہ کرنے کی روش ناپسندیدہ بھی ہے اور اس کی کسی بھی دوسرے حلقے سے حمایت ملنا ممکن نہیں۔

[pullquote]منطقی تجزیہ [/pullquote]

اس واقعے کا اگر منطقی انداز سے تجزیہ کیا جائے تو بات سمجھنا مشکل نہیں۔ پشتون طلبہ اپنا کلچرل ایونٹ کر رہے تھے، یہ تو امر واقعہ ہے، اس میں کسی کو شک بھی نہیں۔ پشتون طلبہ کی جھمر، خٹک ڈانس وغیرہ کی ویڈیوز تمام چینلز پر چلتی رہیں۔ اب اگر پشتون طلبہ نے جمعیت طالبات کے پروگرام پر حملہ کرنا ہوتا تو وہ کیا پاگل ہوگئے تھے کہ اپنا کلچرل ایونٹ منعقد کرتے ؟ یہ بھی ممکن نہیں کہ پہلے پشتون طلبہ حملہ کر کے جمعیت طالبات کے پروگرام کو درہم برہم کریں، ڈاکتڑ سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ اور دیگر مقررین کو دھکے دیں، بد سلوکی کریں اور پھرآ کر اپنے پشتون ایونٹ میں خٹک رقص کرنا شروع کر دیں۔ بچوں کا کوئی گروہ بھی ایسا نہیں کرتا۔ پشتون طلبہ کا اپنا پروگرام تھا، جس کی انہوں ںے یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت بھی لی، پولیس کو ایڈوانس بتا بھی دیا۔ ان پر حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا۔ پشتون طلبہ غیر مسلح اور نہتے تھے، جمعیت کےلڑکوں نے ان پر حملہ کیا، دو چار کی درگت بنائی اور پھر طلبہ کے مخصوص انداز میں رفو چکر ہوگئے۔ ادھر پشتون طلبہ مشتعل ہوگئے، انہوں نے کرسیاں توڑ کر ان کے بازوں سے ڈنڈے بنائے اور پھر شکار کرنے نکل کھڑے ہوئے ۔ جو جمعیت کا لڑکا مل گیا، اس کی پھنٹی لگا دی، چاہے وہ ان پر حملہ میں ملوث تھا یا نہیں، اور پھر قریب ہی منعقدہ جمعیت طالبات کے پروگرام کو انہوں ںے نشانہ بنا لیا۔ جب پولیس پہنچی اور ٹی وی کیمرے آئے تو زیادہ تر فوٹیجز میں ڈنڈے بردار پشتون طلبہ ہی نظر آئے تاہم میں نے ایسی ویڈیوز دیکھی جن میں حواس باختہ پشتون طلبہ اپنے زخمی اور بے ہوش ہونے والے لڑکوں کوہوش میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی افراتفری اور بھاگم بھاگ سے واضح تھا کہ وہ اچانک ہی نشانہ بن گئے، بغیر کسی تیاری کی ان کی کٹ لگ گئی۔

[pullquote]کیا رقص وجہ بنی؟[/pullquote]

میرے خیال میں یہ کوئی وجہ نہیں بنتی۔ پشتون کلچرل ایونٹ کوئی رقص وسرود کی محفل نہیں تھی۔ اس میں مخلوط ڈانس پارٹی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ جس ہلکے پھلکے انداز میں پشتو موسیقی پر پشتون نوجوان اپنا جھمر ٹائپ ڈانس ، اس کا نام شائد اتڑ ہے، کر رہے تھے، اسے کسی بھی اعتبار سے غیر اخلاقی نہیں کہا جا سکتا۔ سرائیکی، سندھی، بلوچ ، پشتون بلکہ پنجابی نوجوانوں میں اس طرح کی جھمر، بھنگڑا وغیرہ عام ہے۔ اس طرز کے رقص عرب میں بھی عام ہیں، بلکہ مصر میں اخوانی نوجوان بھی اس طرح عربی رقص اپنی تقریبات میں کرتے ہیں۔ یونیورسٹی وغیرہ میں تو اس سے بہت کچھ زیادہ بھی ہوجاتا ہے۔ سپورٹس گالہ میں بچیاں گانے بھی گاتی رہتی ہیں، کھلاڑیوں کے حق میں نعرے بازی کے ساتھ ۔ اس لئے رقص کوئی ایشو نہیں تھا، البتہ جمعیت کے حلقوں میں اسے پشتون سٹوڈنٹس کی جانب سے ایک ایکٹوٹی کے طور پر ضرور دیکھا گیا ہو گا، ممکن ہے کسی ’’سیانے‘‘ نے تجویز پیش کی ہو کہ یہ گروپ زیادہ ’’فری‘‘ ہو رہا ہےاور اپنا اثرورسوخ پھیلا رہا ہے، اس کا مکو ٹھپنا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے جمیعت کے کسی حلقے کو یہ سب غیر اخلاقی لگا ہو۔ بہرحال جس کا جو بھی خیال تھا، یہ کوئی غیر اخلاقی میلہ نہیں تھا، اوراس کا دفاع یہ کہہ کر نہیں کیا جا سکتا کہ یونیورسٹوں میں رقص کی محفلیں ہوں گی تو مزاحمت تو ہوگی۔ ایسا کہنا عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

[pullquote] پشتون کلچرڈے کیوں منایا گیا؟[/pullquote]

جمعیت کے حملے کا دفاع کرنے والوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ آخر اکیس مارچ کو پشتون کلچر ڈے کیوں منایا گیا اور صرف پنجاب یونیورسٹی ہی میں کیوں ؟اگر کوئی پشتون ڈے تھا تو اسے قومی سطح پر اور خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختون خوا میں منانا چاہیے ، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ سوال تو درست ہے، مجھے بھی اس کی تک سمجھ نہیں آئی۔ اس روز ایسا کوئی پشتون کلچرل ڈے نہیں تھا۔ ویسے بھی جب تئیس مارچ کے حوالے سے ملک بھر میں پروگرام ہو رہے ہیں، جامعہ پنجاب میں جمعیت بھرپور ایکٹوٹیز کر رہی ہے ، ایسے میں اکیس مارچ کو پشتون کلچر ڈے کا کیا جواز ہے ؟

تاہم اس پشتون کلچر ڈے کو پاکستان سے متصادم قرار دینا بھی زیادتی ہے۔ پشتون، سندھی، بلوچی یا سرائیکی ڈے وغیرہ پاکستان کے مختلف دلکش رنگ ہی ہیں۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس طرح پختون کلچر مسلط کیا جا رہا تھا یا یہ کہ کیا سندھ، بلوچستان اور پشاور وغیرہ میں پنجابی ڈے منانے کی اجازت ہے جو جامعہ پنجاب میں پشتون کلچر ڈے منانے دیا جاتا۔ یہ بات کہنے والے کیا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ پنجابی ڈے منانے کے حامی ہیں اور چونکہ چھوٹے صوبوں کی جامعات میں ایسا ہونا مشکل لگتا ہے، اس لئے ہم بھی جامعہ پنجاب میں ایسا نہیں ہونے دیں گے؟ یہ تو نہایت بودی دلیل ہے اور جمعیت کا نسلی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس لئے یہ ان کا پوائنٹ بنتا ہی نہیں۔ بظاہر مجھے یہ لگ رہا ہے کہ مارچ کے خوشگوار موسم میں پشتون طلبہ نے ایک ایکٹوٹی کرنا چاہیی، جس کے لئے پشتون کلچر ڈے کی طرح ڈال دی گئی ۔ اسے باچاخانی سیاست کہنا بھی مناسب نہیں کیونکہ پشتون سٹوڈنٹس پشتو بولنے والے تو ہیںِ مگر ان میں سے بہت سوں کا اے این پی یا باچا خانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

[pullquote] جمعیت پر یلغاراور یک طرفہ مہم [/pullquote]

جمعیت کے لڑکوں نے یہ بلنڈر کیا۔ مجھے ابھی تک اس یقین نہیں کہ یہ فیصلہ جمعیت کی اعلیٰ سطحی قیادت کی جانب سے ہوا ہوگا۔ ایسی حماقت کی توقع کم ہی ہے۔ ممکن ہے کہ مقامی سطح پر کچھ لڑکوں نے یہ حرکت کر ڈالی ہو، مگر بعد میں جس طرح جمعیت نے اس پر پوزیشن لے لی اور جس شدومد سے اس کا دفاع کرنا شروع کر دیا، اس سے مایوسی ہوئی۔ جماعت کے ایسے نیک طینت لوگوں نے بھی اس مسئلے پر پوسٹیں لکھیں، جن سے ظلم کی حمایت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ شائد بڑی وجہ جمعیت مخالف عناصر کا متحد اور یکسو ہو کر جمعیت پر چڑھ دوڑنا تھا۔ جمعیت پر تنقید کا جوازاس معاملے میں فراواں تھا، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جمعیت مجسم شر یا پیکر ظلمت ہے۔ ایسا کہنا بھی زیادتی ہے۔ یہ کہنا کہ جمعیت ستر سال سے بدمعاشی کر رہی ہے، یہ بھی درست نہیں۔

جمعیت کے اپنے پلس مائنس ہیں۔ اس نے غلطی کی، اس پر تنقید ہونی چاہیے، سخت تنقید کی جائے مگر ایسا کرتے ہوئے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک نظریاتی کردار رہا ہے، انہوں نے بڑے مشکل وقت میں جاندار انداز سے جبر واستبداد کی مزاحمت کی ۔ جنرل ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹر کو جامعہ پنجاب میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ مارشل لا حکومت کی تمام تر قوت اور ہیبت کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہوپایا اور دلچسپ بات ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی جنرل صاحب کے ساتھ تھی اور اس پر مارشل لا کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگ رہا تھا۔ جمعیت نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا اور ڈکٹیٹر کو پنجاب یونیورسٹی نہیں آنے دیا۔ بھٹو دور میں ریاستی استبداد کی جمعیت کے پلیٹ فارم سے شاندار مزاحمت ہوئی۔ اس دور کے طلبہ لیڈر قومی سطح پر مشہور ہوئے، جاوید ہاشمی جن میں سرفہرست ہیں۔ جمعیت واحد طلبہ تنظیم ہے جس نے مسلسل پروگرام کئے، طلبہ کے لئے سب سے زیادہ منظم انداز میں ورکشاپیں، کانفرنسیں، کیرئر کونسلنگ، داخلہ میں مدد، درس پروگرام اور تربیتی سمینارز کرائے۔ تعلیمی اداروں میں فیسوں سے لے کر دیگر تمام طلبہ مسائل کے حل کے لئے نمایاں ترین کردار اسلامی جمعیت طلبہ ہی کا رہا ہے۔ جمعیت طالبات کا کردار تو زیادہ تابناک اور شاندار رہا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک کام یہ ہے کہ اس نے کسی بھی قسم کی لسانی، مسلکی ، برادری کی شناخت سے بالاتر تنظیم قائم کی اور اس روایت کو برقرار رکھا۔ کہیں پر بھی جمعیت کا نسلی یا لسانی پہلو سامنے نہیں آتا۔ پاکستان جیسے شدید پولرائزڈ ملک میں ان تعصبات سے بالاتر طلبہ تنظیم قائم کرنا غیرمعمولی کامیابی ہے۔

مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ بعض دوستوں نے جمعیت کو داعش سے تشبیہ دے ڈالی۔ سید مودودی کا یہ کریڈٹ ہے کہ انہوں نے اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں دستوری جدوجہد کی تلقین اور تربیت کی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے آپ کو شدت پسندی سے الگ رکھا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں کچھ لڑکے القاعدہ کی جانب مائل ہوئے ،مگر سرعت سے انہں تنظیم سے نکال باہر کیا گیا۔ داعش یا اس قسم کے کسی بھی فلسفے کی سب سے زیادہ مخالفت اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے ہوگی۔ پنجاب یونیورسٹی میں البتہ جمعیت کو اپنے رویہ بدلنا ہوگا۔ زیادہ اوپن نیس لانے کی ضرورت ہے۔ برداشت، رواداری، دوسروں کی تنقید سہنا اور سب سے بڑھ کر اخلاقی محتسب بننے سے گریز کرنا ہوگا۔ جمیعت یا کسی بھی تنظیم گروہ کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی من پسند اخلاقیات کی بنیاد پر دوسروں کو جبراً روکے اور اپنی اخلاقیات نافذ کرے۔ یہ کام یونیورسٹی انتظامیہ کا ہے، جمعیت یا کوئی بھی تنظیم اس جانب رجوع کرے۔ تنظیمی یا گروہی سطح پر مورل پولیسنگ کا تصور ویسے بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں اس کی قطعی گنجائش نہیں۔ جمعیت کے نوجوانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے ، ورنہ وہ اس تنظیم پر ریاستی پابندی لگوا بیٹھیں گے۔

یہ بنیادی بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مختلف سطحیں ہیں۔ جامعہ پنجاب اس کا ایک حصہ ہی ہے، یہاں پر جمعیت کا رویہ، کلچر اگرچہ مختلف رہا ہے اور مختلف حوالوں سے اس پر تنقید ہوتی رہی، ہونی بھی چاہیے تھی۔ تاہم جنوبی پنجاب میں جمعیت کا اپنا ایک خاص کردار ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سنی طلبہ تنظیم اے ٹی آئی کے ہاتھوں جمعیت نے بہت زیادتیاں سہیں۔ میرا ایک کلاس فیلو طارق فاروق بھٹی جو بہاولپور ڈویژن کا ناظم تھا، اس کی اے ٹی آئی کے لڑکوں نے ٹانگیں توڑ ڈالیں اور والدین کو بیٹے کی جان بچانے کے لئے وہاڑی شفٹ ہوجانا پڑا۔ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایم کیو ایم کے ظلم، فسطائیت اور قتل وغارت کا حیران کن عزم وہمت سے مقابلہ کیا۔ جمعیت کے درجنوں بلکہ بیسیوں لڑکوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایم کیو ایم کے خلاف صرف جمیعت ہی کو کھڑا ہونے کی ہمت ہوئی ۔ کراچی جمعیت کا اپنا ایک کردار رہا ہے، خاص کر ایم کیو ایم کے زمانے کی جمعیت کے کردار کو نہ سراہنا ناانصافی ہوگی۔ جامعہ پنجاب کے کسی افسوسناک واقعے کو سامنے رکھ کر کراچی جمیعت یا خیبر پختون خوا میں جعمیت کے تمام تر کام کو مسترد کرنا، اس پر سیاہی پھیر دینا میرے نزدیک دیانت نہیں۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکوں کا ایک خاص اخلاقی معیار رہا ہے۔ میرے عزیز ترین دوستوں میں سے بعض اسلامی جمعیت طلبہ کے سابقون ہیں اور حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ان کا کردار ، تقویٰ اور اخلاص ولیوں جیسا ہے۔ ظاہر ہے یہ بھی جمعیت ہی کی پراڈکٹ ہیں۔ جمعیت میں بھلے مانس،شریف ، پڑھے لکھے لڑکوں کی اکثریت ہے۔ البتہ ایک حلقہ ضرور یہاں اتھرے لڑکوں کا رہا ہے، جو طاقت کے استعمال کو غلط نہیں سمجھتا، یونیورسٹی ہاسٹلوں پر قبضے، مخالف تنظیموں یا گروپوں کو کرش کرنا انکے نزدیک جائز ہے۔ میرے نزدیک ایسے چند لڑکوں کی خاطر اسلامی جمعیت طلبہ جیسی بڑے پوٹینشل کی حامل جماعت کوقربان کر دینا بذات خود ایک ظلم ہے۔

جمعیت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر یونیورسٹیوں میں طلبہ کمیونٹی پرو جمعیت اور اینٹی جمعیت کی بنیاد پر منقسم ہے۔ جو جمعیت کا حامی نہیں، وہ اس کا مخالف ہے۔ جمعیت کے حوالے سے غیر جانبدار کیمپ موجود ہی نہیں۔ یہ بہت پریشان کن اور خطرناک بات ہے۔ اس تاثر کو بدلنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر پچھلے دو دنوں میں ٹرینڈ نظر آیا، اس میں اسلامی جمعیت طلبہ کے تھنک ٹینکس کے لئے بہت کچھ سیکھنے کو موجود ہے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر اپنے وقت میں جمعیت کے مقبول ترین ناظم اعلیٰ رہے ہیں۔ اگر وہ جمعیت کے اخلاقی معیار اور تربیت کو بہتر کر سکیں تو یہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہوگا۔ میری ذاتی خواہش ہے کہ جامعہ پنجاب میں جو افسوسناک واقعہ ہوا، مستقبل میں جمعیت کو اس طرح کے جھمیلیوں سے دور رہنا چاہیے۔ دعوت وتربیت کے ذریعے وہ انقلاب برپا کر سکتے ہیں، صرف درست سمت میں فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے