کیا اسلام کو کوئی خطرہ ہے؟

کیا اس ملک میں خدانخواستہ، آج اسلام کو کوئی خطرہ درپیش ہے؟

ایک خاص وقت کے بعد ہمارے ہاں ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ اہلِ مذہب کی آواز بلند ہوتی ہے کہ پاکستان میں مذہب کی ناموس خطرے میں گھِر گئی ہے۔ جلسے ہوتے ہیں، جلوس برآمد ہوتے ہیں، مجالس برپا ہوتی ہیں۔ مرنے مارنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ ہنگامہ کچھ وقت برپا رہتا ہے۔ پھر اچانک خاموشی چھا جاتی ہے‘ جیسے خطرہ ٹل گیا۔ سکون کا یہ لمحہ کچھ وقت کے لیے باقی رہتا ہے۔ پھر ایک لہر اُٹھتی ہے اور اس ملک کی ملتِ اسلامیہ کو آواز دی جاتی ہے کہ ناموسِ دین کے لیے اگر آج بھی نہ اُٹھے تو پھر کب اُٹھو گے۔ اِن دنوں پھر یہ موسم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو خاکم بدہن، پھر کسی نئے دشمن کا سامنا ہے۔
میں یہ مقدمہ کبھی نہیں سمجھ سکا۔ جس ملک میں مسلمانوں کی آبادی ستانوے فی صد ہو۔ ان میں بھی کم و بیش نوے فی صد وہ ہوں جو اسلام کے نام پر جان دینے اور جان لینے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہوں۔ جس ملک کے متفقہ آئین میں یہ درج ہو کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے اور یہ کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جس ملک میں بھٹو اور مشرف جیسے لبرل اور الٹرا لبرل حکمران شراب پر پابندی عائد کر دیں اور خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کرتے وقت روشن خیال سکالرز پر روایتی علما کو ترجیح دیں۔ جس ملک میں عدلیہ کے جج اتنے بیدار مغز ہوں کہ لبرل ازم کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوں۔ جہاں حکومت دین کے باب میں اتنی غیرت مند ہو کہ وزیرِ داخلہ اعلان فرمائیں: سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کر دیں گے مگر دین کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے… ایسے ملک میں اسلام کو کیا خطرہ درپیش ہو سکتا ہے؟

بظاہر یہ چند بلاگرز کا مسئلہ ہے۔ بلاگرز، جن کا کچھ پتہ نہیں۔ بیہودگی اور بدتمیزی جن کا وتیرہ ہے۔ کیا ان سے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ ہر مہذب آدمی کی خواہش ہے کہ ایسے بلاگرز نہیں ہونے چاہئیں۔ ریاست سے یہ مطالبہ بھی بجا ہے کہ ایسے لوگوں کا سراغ لگائے اور ملک کے قانون کے مطابق سزا دے۔ مگر جب ریاست یہاں تک جانے پر آمادہ ہو کہ ‘وہ اس کے لیے سوشل میڈیا ہی کو بند کر دے گی‘ تو پھر ریاست سے احتجاج کی کیا ضرورت ہے؟ وزیرِ داخلہ کی دینی حمیت تو ہر شک و شبہ سے پاک ہے۔ تمام تحقیقی ادارے ان کے قبضہء قدرت میں ہیں۔ جب وہ اس معاملے پر اتنے واضح ہیں۔ جب اعلیٰ عدلیہ کے جج بغیر کسی ابہام کے اپنی بات کہہ رہے ہیں تو احتجاج کی کیا ضرورت ہے؟ عوام بیدار، علما متحرک، ریاست دینی حمیت کی حامل… پھر اسلام کو کیا خطرہ درپیش ہے؟

اور تو اور اب مولانا فضل الرحمٰن بھی اسلام کے دفاع میں نکل پڑے ہیں۔ وہ اہلِ دیوبند کے ایک عالمی اجتماع کی تیاری میں ہیں۔ اس کا ایجنڈا انہوں نے واضح فرما دیا۔ ارشاد ہوا: ”عالمی اجتماع دین بیزار قوتوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہو گا… ہمیں دشمنوں، ملحدین اور سیکولر عناصر کو سخت پیغام دینا ہو گا‘‘۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ دین بیزار قوتیں اہلِ دین کی مدعو ہیں‘ جن سے حکمت اور اچھے اسلوب کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ یہ منہ پر طمانچہ والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، لیکن چھوڑیے، اس پر بات ہوئی تو کسی اور طرف نکل جائے گی۔ کہنا یہ ہے کہ مولانا جیسا حقیقت پسند سیاستدان بھی اگر دینی حمیت کے باب ایسی شمشیرِ برہنہ ہے تو پھر اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

اس ملک میں اسلام کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا۔ اسلام ایک سماجی اور تہذیبی قوت ہے۔ یہ اپنے وجود کی بقا کے لیے ریاست کا محتاج نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ انگریزوں کے دور میں ختم ہو گیا ہوتا۔ اسے ترکی میں دم توڑ دینا چاہیے تھا۔ مسلمانوں پہ ایک طویل عرصہ ایسا گزرا جب ان کے پاس کوئی سیاسی قوت نہیں تھی۔ اس کے باوجود نہ صرف یہ قائم رہا بلکہ نوآبادیاتی دور کے بعد، عالمی سیاست میں ایک بڑے کردار کے ساتھ، پھر سے نمودار ہوا۔ کچھ لوگ اسلام کو ایک سیاسی عمل کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر سیاسی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں آ گئی تو اسلام خاکم بدہن باقی نہیں رہے گا۔
تھوڑی دیر کے لیے اگر اس مفروضے کو مان لیں تو بھی پاکستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ ریاست کلمہ پڑھ چکی اور حکمران، کم از کم وزیر داخلہ دینی حمیت میں کسی سے کم نہیں۔ ایک مذہبی جماعت خیبر پختون خوا میں حکومت کا حصہ ہے۔ دوسری مرکز میں۔ گویا ریاست کی پوری قوت اسلام کے دفاع میں کھڑی ہے۔ اس لیے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اسلام کو کس سے خطرہ ہے؟ لوگوں میں کس کے خلاف اشتعال پیدا کیا جا رہا ہے؟ صدیوں پر محیط اسلام کی روایت جسے عالمی قوتیں نہیں مٹا سکیں، اسے چند بے نام بلاگرز سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

کہا جا رہا ہے کہ الحاد پھیل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے پھیل رہا ہے؟ بے ہودگی سے؟ کیا انسانیت کی پوری تاریخ میں کبھی بے ہودگی سے کوئی سوچ پھیلی ہے؟ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ دنیا میں کوئی مذہب بیزار گروہ اٹھا ہو، جس نے بدتمیزی کو اپنا شعار بنایا ہو اور وہ کامیاب ہوا ہو۔ اور پھر ایسے معاشرے میں جہاں مذہب سے محبت لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہو؟ تو کیا الحاد دلیل سے پھیل رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا جواب دلیل سے دینا ہو گا۔ مارکسزم اصلاً ایک مذہب بیزار تحریک ہے۔ یہ اگر بیسویں صدی کا ایک غالب فکر تھا تو اس کی ایک وجہ ہے۔ مارکس اور اینجیلز جیسے لوگوں نے ایک فکری مقدمہ قائم کیا۔ تاریخی عمل کی ایک مادی تعبیر کی۔ ایک سنجیدہ فکریہ بحث اٹھائی جس کے بعد کہیں جا کر اسے پذیرائی ملی۔

اس کے جواب میں بھی اسلام کا ایک فکری مقدمہ قائم ہوا۔ لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ مارکسزم کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جواب دیے۔ غیر معمولی لٹریچر وجود میں آیا۔ مارکسزم کی پیش رفت کو روکنے کے لیے جوابی فکری بیانیہ سامنے آیا۔ اسی طرح اگر آج الحاد کسی فکری بیانیے کی صورت میں اٹھا ہے تو اس کے جواب میں کوئی فکری استدلال پیش کرنا پڑے گا۔ جلسہ، جلوس یا احتجاج اس کا جواب نہیں ہو سکتے۔ دنیا میں اس وقت مذہب کو لبرل ازم کا چیلنج درپیش ہے۔ یہ دو نظام ہائے اقدار کا معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا اس کا میدان ہے۔ سوشل میڈیا میں بیہودہ لوگ بھی ہیں اور سنجیدہ بھی۔ بیہودگی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سنجیدگی البتہ اپنا جواب مانگتی ہے اور ظاہر ہے کہ سنجیدہ جواب۔ اگر کسی کو مذہب کا مقدمہ لڑنا ہے تو اس کا اصل میدان یہی ہے۔

آج اگر پاکستان میں پھر اسلام کو کسی نئے خطرے سے دوچار بتایا جا رہا ہے تو اس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں۔ یہ دنیاوی مقاصد کے لیے اسلام کا استعمال ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ اسلام کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ ایک توانا سماجی، تہذیبی اور اب سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے۔ اسلام کو خطرہ ان خود ساختہ تعبیرات سے ہیں جو اسے دین بیزار لوگوں کے منہ کے لیے طمانچے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ کوئی اس ‘خطرے‘ کی طرف دھیان دینے پر آمادہ نہیں۔ ایک اور سوال بھی اہم ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد، پاکستان میں اسلام کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور ایک دن اچانک معلوم ہوتا کہ وہ سب خطرات ختم ہو گئے؟ کبھی کسی نے اس سوال پر غور کیا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے