مخلوط تعلیمی نظام اور سماجی انحطاط

ملکوں اور قوموں کی تعمیر،ترقی ،خوشحالی اور استحکام کا عمل نظام تعلیم سے مشروط ہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو مد نظر رکھ کر دنیا بھر کے ممالک اپنے شہریوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،قومی ،سماجی اور معاشرتی حالات و ضروریات کو مدنظر رکھ کر تعلیمی پالیسیاں بناتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وسیع تر قومی اور ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر تعلیمی پالیسیوں کو تسلسل فراہم کیا جاتا ہے ۔

اب اگر ہم مملکت خداد اد جسے لاتعداد قربانیوں سے حاصل کیا گیا کی بات کریں تو آزادی کے بعد سے آج تک ہم اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے ،تنکا تنکا چن کر بنایا ہوا آشیانہ آج بھی آندھیوں اور طوفانوں کے بے رحم تھیپیڑوں کی زد میں ہے ،لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے لوگ قومی حزانے کو دل کھول کر لوٹ رہے ہیں، اقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے اندھوں کی طرح استعمال کر رہے ہیں ا ور یہ سلسلہ سات دہائیوں سے جاری ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی کی راہوں میں ’’شاہ کلید‘‘کی حیثیت رکھنے والے تعلیمی نظام کے حوالے سے ناقص پالیسیاں ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہماری معاشرتی تباہی کا سبب مخلوط تعلیمی نظام ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دین فطرت ہے ،اسلام کے قوانین نہایت واضح اور قابل عمل ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے بغاوت کر لی ہے اور جدیدیت کے نام پر مخلوط تعلیمی نظام کی شکل میں ایک ایسا ناسور پال لیا ہے جس نے اب رسنا شروع کر دیا ہے ،اس کے واضح اثرات ہمارے معاشرے پر نظر آتے ہیں کہ کہیں ساتویں کلاس کا طالبعلم استانی سے محبت پروان نہ چڑھنے پر خودکشی کر رہا ہے تو کہیں میٹرک کے ہم جماعت لڑکا اور لڑکی دریائے عشق عبور کرتے ہوئے موت کی گھاٹ اترتے ہیں ۔

مگر اس میں ان بچوں کا کوئی خاص قصور نظرنہیں آتا کیونکہ جو عمر بچوں کی کھیل اور ہنسی مذاق کی ہوتی ہے ،جس عمر میں بچے عشق کی ع اور ش سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ،موت سے آشنائی تو دور جو عمر زندگی کا عکس ہوا کرتی ہے ،وہ عمر جس میں ذہن کچا ہو تا ہے ،اس عمر میں اگر ۱۲ سے ۲۲ سالہ خوبصورت نوجوان لڑکی ہر روز استانی کے روپ میں سامنے آتی ہو تو ایسے واقعات ہونا قرین قیاس ہے۔

مخلوط تعلیمی نظام بلاشبہ ہمارے معاشرے کے لیے بہت بڑی لعنت ہے ۔مخلوط تعلیمی نظام کے چاہے ہزاروں فائدے ہوں مگر اس کی ایک قباحت ہی اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیرتی ہے اور وہ ہے عورت کی عصمت،عفت اور حیاء کی ارزانی ۔بحیثیت مسلمان ہماری تہذیب تو ہمیں اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ عورت ننگے سر ،بغیر پردہ کے گھر سے باہر نکلے ،کجایہ کہ عمر کے اس دور میں جب نسوانی جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں وہ نوجوان لڑکوں کے درمیان بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے اور بے تکلفی سے آزادانہ میل جول رکھے اور وہ بھی اس حالت میں کہ ایسے حیاسوز ملبوسات زیب تن ہوں کہ ایک عابد و زاہد ،شب زندہ دار بھی اگر اتفاقیہ دیکھ لے تو ایک بار ضرور ٹھٹک کر رہ جائے ۔ یہ توبہ شکن قربتیں جو چند دنوں میں رنگ لاتی ہیں تو فحاشی کے سینکڑوں باب کھلتے اور رومان کے ان گنت افسانے جنم لیتے ہیں جو کسی قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے لیئے کافی ہوتے ہیں۔

مخلوظ تعلیمی نظام کے حوالے سے بے شمار دلیلیں سیکولرازم کے خواہش مند ماہرین تعلیم بیان کرتے ہیں ۔ایک دلیل یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ایسے تعلیمی نظام سے لڑکوں اور لڑکیون میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے ،جو ان کے لیئے حصول تعلیم میں لگن کا باعث بنتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے ’’جب کو ئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘

اب اگر موجودہ دور کے کالجز اور یونیورسٹیوں کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو کالجز اور یونیورسٹیوں کے ہر کونے میں نوجوان جوڑے مسکراتے اور اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں ،اکثر و بیشتر انہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ بھی ڈالے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان خوب مقابلے کی فضا پیدا ہو رہی ہوتی ہے ،اب وہ فضا رومان لڑانے کی ہو یا بے حیاء حرکات کی ہو مقابلہ ضرور ہو رہا ہوتا ہے ۔

مخلوط تعلیمی نطام کے حوالے سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ تعلیم صرف مختلف کتابوں کو پڑھ کر امتحان پاس کر لینے کا ہی نام نہیں بلکہ افراد کے کردار کی نشوونما اور زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیئے تجربات حاصل کرنے کا نام ہے ،اس لیئے تعلیمی اداروں میں گھر جیسا یعنی ’’ بھائی بہن‘‘ کی طرح کا ماحول بہت ضروری ہے جو صرف مخلوظ تعلیم ہی فراہم کرتی ہے ۔

ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ایسے لوگو ں کے عقل پر جو لڑکیوں کو حیاء سوز لباس زیب تن کروا کے گھر سے تعلیمی اداروں میں بھائی بہن جیسا ماحول بنانے کے لیئے بھیجتے ہیں اور پھر خوب گھر جیسا ما حول بن رہا ہوتا ہے کالجز اور یونیورسٹیوں میں جب حیاء سوز لباس زیب تن کیئے کوئی دوشیزہ یونیورسٹی گیٹ سے اندر داخل ہوتی ہے اور پلک جپھکتے ہی دس لڑکوں کی لائن اس کے پیچھے ہوتی ہے جو شاید اس کے بھائی ہونے کے ناطے اسے کلاس تک چھوڑتے ہیں اور پھر اکثر ان بھائیوں کی زبان سے ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے’’ کیا چیز ہے یار‘‘۔

میرے خیال میں اس نظام کی سب سے اہم دلیل یہ بنتی ہے جو اکثر بیان کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس تعلیمی نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں ہریالی رہتی ہے،تقریبوں میں رنگینی ہوتی ہے ،اساتذہ اور طلبا کا پڑھائی میں دل بھی لگا رہتا ہے ۔اب اگر اس نظام کو ختم کر دیا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں رہ ہی کیا جاتا ہے ؟ آخر ’وجود زن سے ہے تو ہے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کائنات میں رونق۔

مخلوط تعلیمی نظام میں خواہشات نفس کی تسکین،آنکھیں سینکنا،ملاقات کے مواقع،پیار کی کہانیاں ،شادی کے عہد و پیما ن اہم حصہ ہیں اور یہی اس نظام کی دلیل بھی ہے۔

مخلوظ تعلیمی نظام سیم قاتل ہے،مگر اس کا مطلب قطعاََیہ نہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری نہیں ۔اسلام نے عورت اور مرد دونوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔

عورتوں کی تعلیم بہت ضروری ہے لیکن خالصتاََ اسلامی نقطہ نظر سے کیونکہ اولاد کی تربیت اور کردار سازی میں بھی سب سے اہم کردار عورت کا ہوتا ہے ۔ماضی میں مسلم خواتین نے اسلامی دائرہ کار میں رہ کر نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں ۔علم و فضل میں اپنا مقام پیدا کیا ہے اور اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی روشن مثالیں قائم کی ہیں ،امام ابو حنیفہ ؒ ،امام شافعیؒ ،امام مالکؒ ،امام احمد بن حنبلؒ ،سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ،شاہ ولی اللہؒ ،علامہ اقبالؒ وغیرہ اس کی نمایاں دلیل ہیں ۔

یہ مخلوط تعلیمی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اس پائے کے لوگ پیدا نہیں ہورہے اور نہ ہی اس تعلیمی نظام سے اس طرح کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے