سوشل میڈیا اور بدلتے معیار

ایک زمانہ تھا جب نجی اور عوامی زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ تہذیب کی ترقی نے نجی اور عوامی زندگی کو الگ کر دیا ۔ privateزندگی کا مطلب وہ لمحات یا واقعات ہوتے ہیں جو کہ خاص اپنی ذات یا خاندان کے لئے ہوں، اور جن سے پبلک کا کوئی تعلق نہ ہو۔

ہرشخص اس پر اصرار کرتا ہے کہ اس کے نجی معاملات کے بارے میں کسی کو بھنک تک نہ ہو کیوں کہ وہ نجی زندگی میں خود ہی غلام اور حاکم ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اب دوبارہ نجی اور عوامی زندگی کے تصور میں بدلاء دیکھنے میں آ رہا ہے۔گو یا ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم دوبارہ رومیوں کے اوائلی دور کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ رومیوں کے اوائلی دور میں نجی زندگی کا کوئی Concept نہیں تھا۔آج ہم بھی وہی طور طریقہ اپنا رہے ہیں مگر تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ۔

آج دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے رہن سہن،سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کے انداز بدل رہے ہیں۔سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں بیک وقت جدت اور شدت پسند د اپنے نظریات کا پر چار کرتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات دونوں گروہوں کے درمیان بے تکی بحث چل رہی ہوتی ہے۔ اس بے تکی بحث میں مکالمے اور دلائل کے بجائے گالم گلوچ سے کام زیادہ لیا جاتا ہے۔چاہے رجعت پسند ہوں یا روشن خیال یہ ہر چیز کو لسانیت، قومیت اور بالخصوص مذہب سے جوڑنا ضروری سمجھتے ہیں اور خود کو ریاست، مذہب اور اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کا محافظ سمجھتے ہیں۔

اکثریت ان میں سے جذباتیوں کی ہے جو بات کرنے سے قبل کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں الجھنا ان کے لیے معمولی سی بات ہے۔ ایسے بے شمار موضوعات ہیں جن پر اکثر و بیشتر یار لوگوں کی بحث چل رہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کب کہاں کس کے ساتھ گیے کیوں گیے اور ساتھ جا کر کیا محسوس کیا،یہ سب باتیں بغیر سوچے سمجھے فیس بوک پر پوسٹ کی صور ت میں کچھ اپ لوڈ ا تو کچھ اپڈیٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک پرائیویسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ا

نتہائی جدت اور شدت پسندوں کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے اور دن بدن ہم انتہا پسند بنتے جا رہے ہیں۔ حد تویہ ہو گئی ہے کہ اب ہم خود ہی سزا و جزا کا تعین کر کے مجرموں کو سزا دیتے رہتے ہیں۔زور بازو پر باغی اور مزاحمت کرنے والے پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اپنے مخالف کے نظریات کو تسلیم کرنے والے نہیں۔سستی شہرت والوں نے خود ہی مذہب اور ریاست کی حفاظت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔

جو کام ریاستی اداروں کو کرنے چاہیئیں وہ افراد کر رہے ہیں۔ان کی جذباتیت بے سبب نہیں ایک عرصہ سے اس پر کام کیا جا رہا تھا۔اگر ہم بغور جائزہ لیں تو تمام فتنوں اور فسادات کی جڑیں ماضی میں ملیں گی، جو ہم نے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت بڑی افسانوی بنا رکھی ہے ،جس پر کئی عالموں، ذاکروں اور شاعروں نے جذباتیت کے تہہ تہہ ردے چڑھا رکھے ہیں۔ ان کی جذباتیت کی وجہ سے آج معاشرے میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔مختلف بلاگنگ سائٹس پر علمی و ادبی موضوعات پر لکھی جانے والی تحریریں بھی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

اگر حکومت واقعی مخلص ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں انتشار نہ پھیلے تو اس سے بچنے کے لیے حکومت کو سائبر کرائمز پرقابو پانے کے لیے پڑوسی ملک بھارت کی طرح سائبر پولیس بنا کر اسے خود مختیار بنا دیا جائے جو سزا و جزا کا تعین خود کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے