بدعملی، بےعملی اور بے حسی

معاشرہ بدعملی اور بےعملی کے درمیان کہیں پھنسا ہوا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ حکومت سمیت تمام ادارے بھی بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مملکت خداداد کو قائم ہوئے لگ بھگ ستر برس بیت گئے، کسی بھی ملک کو مضبوط بنیادوں پر استوار ہونیکے لئے یہ عرصہ بہت کافی ہے۔ آئین پاکستان مملکت میں ہر کسی کیلئے قابل احترام، قانون سب کیلئے یکساں، عدالتیں مصروف اور ادارے متحرک ہیں۔ حکومت نظام مملکت اور صوبائی حکومتیں چاروں صوبوں کا نظم و نسق چلا رہی ہیں۔ جمہوریت کو آمریت سے شکایات تو ہیں مگر گزشتہ آٹھ سالوں سے زائد جمہوری حکومتوں کا تسلسل برقرار ہے۔ کاغذات پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک مگر کیا وجہ ہے کجھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔

کسی بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھیں، بونے راج کر رہے ہیں۔ قابلیت و اہلیت کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے، پھر المیہ یہ ہے کہ اول تو ہم سچ برداشت ہی نہیں کرتے اور اگر بدقسمتی سے کہیں دن دیہاڑے سچ سے سامنا ہو بھی جائے تو کہنے والے کو کافر، مغرب کا غلام، ملک دشمن اور نجانے کیا کچھ کہہ کراپنے سفید جھوٹ کو سچ بنا لیتے ہیں۔ حقائق سے نظر چرانے کے اس رویے نے معاشرے کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ گھر کا نلکا بھی خراب ہو تو قصور بھارتی ایجنسی را کا، سیلاب تباہی مچائے تو ذمہ دار سی آئی اے اور قحط پڑ جائے تو موساد، گویا بدعملیوں اور بےعملی کی ذمہ داری سے فرار کیلئے من گھڑت تاویلات کی کوئی کمی نہ رہی۔ حکومت خواہ کوئی بھی ہو یہی صورتحال طرہ امتیاز بن چکی ہے۔ عوام کا تحفظ ہو یا دہشتگردی کا معاملہ، تمام ذمہ داری افغانستان، بھارت اور امریکہ پر عائد کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ ڈیم نہ بنیں اور پانی کی کمیابی ہو تو صوبے وفاق اور وفاق صوبوں پر ذمہ داری ڈالکر مطمئن ہو جاتا ہے۔ صحت اور تعلیم اگرچہ اب صوبائی معاملہ ہے، وفاق اور صوبائی حکومتیں بلند و بالا اعلانات تو کرتی رہتیں ہیں مگر مجال ہے جو عوام کو اسکا کوئی فائدہ پہنچا ہو، باالفاظ دیگر صحت اور تعلیم کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔

اس حد تک انکار کی عادت بد میں مبتلا ہیں کہ دوسرے تو دور اپنی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مانا جاتا ہے کہ پنجاب چاروں صوبائی حکومتوں میں سب سے زیادہ اہل اور گڈ گورننس کی حامل ہے۔ سیاسی منفعت کے پہلو سے جائزہ لیا جائے تو شاید یہ تاثر درست مگر عوامی نکتہ نگاہ سے ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اب قصور وڈیو اسکینڈل کا معاملہ دیکھ لیں، اگست 2015 میں جب یہ خبر بریک ہوئی کہ قصور کے حسین خان والا میں بچوں کیساتھ زیادتی کی وڈیوز بنا کر نہ صرف والدین کو بلیک میل کیا جاتا تھا بلکہ یہ وڈیوز غیر ممالک کی مارکیٹ میں بھی فروخت کی جاتی تھیں۔ جب یہ خبر بریک ہوئی تو فوری طور پر رانا ثنااللہ خاندانی تنازعہ قرار دیکرجھٹلا دیا، اسی طرح پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے بھی تردید کر دی۔ جب میڈیا تمام ثبوت و شواہد سامنے لے آیا تو صوبائی اور وفاقی حکومت بھی جاگ پڑی۔ ملزمان کو انجام تک پہنچانے کے دعوے فصیح و بلیغ دعوے کیے گئے، متاثرین کی دادرسی اور قانونی معاونت فراہم کرنے کے وعدے وزیر اعظم کی سطح پر بھی کیے گئے۔ آج ڈیڑھ سال بعد صورتحال یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو کوئی قانونی معاونت فراہم نہ کی گئی بلکہ ان کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ رشتہ داروں اور احباب کے نزدیک یہ مظلوم خاندان اچھوت بن گئے۔ بیشتر خاندان علاقہ چھوڑ گئے مگر بدنامی نے پیچھا نہ چھوڑا، یہ بچے ہر لمحہ ذھنی اذیت سے گزرتے ہیں، انکے والدین زندہ لاشیں بن چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گرفتار ملزمان دھڑلے سے فون پر والدین کو عدالت میں پیروی کرنے کی صورت میں خطرناک دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جب گڈ گورننس کی حامل پنجاب حکومت کی یہ صورتحال ہے تو باقی صوبوں کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں، کوئی عدالت بھی قصور متاثرین کا نوٹس لینے پر تیار نہیں ہے۔ یہ ایک معاملہ نہیں کیا کسی نے پوچھا ہے کہ اے پی ایس پشاور دہشتگردی میں معذور ہونیوالے بچے اور والدین کس حال میں ہیں، سیکورٹی انتظامات میں ناکامی کا ذمہ دار کون تھا۔ کیا کبھی یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ دہشتگردی کا شکار ہونیوالے خاندان کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

بدعملی اور بے عملی کی کوئی ایک داستان تو ہے نہیں، نجانے یہ سلسلہ کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی اور دیگر ملزمان کو حج اسکینڈل کیس میں بری کر دیا گیا۔ بہت اچھی بات ہے، کسی بےقصور کو سزا ملنی بھی نہیں چاہیئے، انکے ساتھ ظلم ہوا، مگر کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ حجاج کرام کیساتھ جو ظلم ہوا اس کا ذمہ دار کون تھا؟ شاید اسکا جواب نہ عدالت دینا چاہے گی نہ حکومت کیے پاس ہے۔ امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کے بیان پر واویلا مچایا جا رہا ہے، امریکیوں کو ویزے دینے پر بڑھ چڑھ کر بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ حسین حقانی سے کوئی ہمدردی نہیں مگر سب کو پتہ ہے کہ یہ کام کوئی اکیلا شخص نہیں کرتا۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ رحمان ملک تھے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ شاہ محمود قریشی، رحمان ملک اور دونوں وزارتوں کے حکام سے تفتیش کی جا سکتی ہے۔ مگر سب کو پتہ ہے کہ سیاسی بیان بازی سے ہٹ کر ذمہ داران کا پتہ چلانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جائیگی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، نہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی معاملے کو حل کرنا ترجیحات میں شامل ہے۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ بدعملی اور بے عملی ایک سیاسی حکمت عملی ہے یا پھر ہماری سیاسی قیادت مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی، یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں وصف بیک وقت موجود ہوں۔ معاملہ صرف حکومت اور اداروں تک محدود نہیں، رفتہ رفتہ بدعملی اور بےعلمی کا زہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے، ہم، آپ اور سب جانے انجانے اب اسی حکمت عملی پر چل کر بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔

اس وقت پورا ملک پاناما کیس کے ’محفوظ‘ فیصلے کا شدت سے انتظار کر رہا ہے، جب تک کیس چلتا رہا عدالتی ریمارکس پر مبنی قیاس آرائیاں، خدشات، ممکنات و مستحبات میڈیا پر چھائے رہے، پورا ملک ہسٹریا کا شکار رہا۔ مجھے اپنی کم عملی کا اعتراف ہے، کوئی سیاسی تجزیہ کار نہیں، کوئی چڑیا بھی میرے پاس نہیں، مگر یہ پیشگوئی ضرور کر سکتا ہوں کہ پاناما کیس کا فیصلہ ایسا آئیگا کہ فریقین بیک زبان جوش و خروش کیساتھ اپنی فتح قرار دینگے اور نظام مملکت اسی طرح جاری و ساری رہیگا۔ مسلم لیگ ن اور اتحادی بھی خوش اور تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی خوش، مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب کہا ہے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے