دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ اعلیٰ سطح کے کمیشن بنائے جو دہشت گردی کے اسباب کا ازالہ کریں اور ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے جو تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں ۔یہ سفارشات یہاں ایک ورکنگ گروپ نے دی ہیں جس کا عنوان ”عسکری گروہوں کی بحالی اور واپسی“ تھا .
شرکاءمیں سابق آئی جی پنجاب طارق کھوسہ ، نیکٹا کے سابق مرکزی کو آرڈینیٹر طارق پرویز ،لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) مسعود عالم ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ،سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ خالد عزیز،نیکٹا کے اصغر چوہدری، افراسیاب خٹک ،برگیڈئیر (ر) محمد فیاض ،خورشید ندیم ،سید عارفین ایم ضیاءالدین ،کالعدم تنظیموں کے نمائندگان اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا شامل تھے ۔
ورکنگ گروپ کا اہتمام پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے کیا تھا، یہ حالیہ دنوں میں دوسرا مکالمہ تھا جس کا مقصد ملک میں انتہا پسندی کا تدارک ہے ۔
ورکنگ گروپ نے عسکری گروہوں کی تخلیق کی متنوع وجوہات کو جانچتے ہوئے یہ تجویز دی کہ پارلیمان ایک اعلیٰ سطح کا قومی کمیشن بنائے جو حقائق کا ادراک کرتے ہوئے قومی مفاہمتی پالیسی بنائے ۔یہ کمیشن طے کرے کہ کالعدم تنظیموں کو کیسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور ان پالیسیوں کا بھی جائزہ لے جس سے عسکریت پسندی کو ہوا مل رہی ہے ۔
گروپ نے ا س بات کا بھی جائزہ لیا کہ کیا اس کمیشن کو ماضی کی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا چاہئے یا نہیں ۔بغیر مقدمہ چلائے وسیع تر معافی کی تجویز کی مخالفت کی گئی ۔آئین سے ماورا کسی قسم کی واپسی یا بحالی قابل ِ قبول نہیں ہے
گروپ نے ایک اور کمیشن کی تجویز دی جو کالعدم تنظیموں کے معاملات کا جائزہ لے ۔اس کمیشن کا طریقہ کار پارلیمانی گروپ تجویز کرے جس کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔اس کمیشن کے ممبران میں پارلیمنٹ کے اراکین ،سماجی ماہرین اور دیگر شعبوں کے لوگ شامل ہوں ۔
اس کمیشن کا بنیادی مقصد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے امور کاجائزہ لینا ہو جس کا سیکریٹریٹ نیکٹا میں بنایا جائے ۔یہ تجویز بھی آئی کہ نیکٹا کالعدم تنظیموں کی مانیٹرنگ کرے ۔ فی الحال اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ ضابطہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے کالعدم گروپ نئے نام سے سامنے آ جاتے ہیں ۔
ایک تجویز یہ بھی آئی کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کا ہر تین سال بعد جائزہ لیا جائے ۔ گروپ نے شدت پسندوں کی بحالی کے امکانات پر بھی غور کیا انہوں نے کہا کہ بحالی کا کام ادارہ جاتی سطح پر کیا جائے جس میں ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں