اسلام اور اختلاف مسالک کی حدود

اسلام دینِ اعتدال ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام کا لغوی مفہوم ہی سلامتی، امن، سکون اور تسلیم و رضا ہے۔ امن و سکون مہذب انسانی معاشرے کی اعلیٰ خصوصیت ہے جہاں توازن و اعتدال نہیں وہاں ظلم و تشدد ہے اور ظلم درندگی کی علامت ہے انسانیت کی نہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینِ اعتدال کی حیثیت سے اسلام زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف اور میانہ روی کا داعی ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ وہ نظامِ سیاست و معیشت ہو یا جہان فکرو نظر، میدانِ جہاد ہو یا تبلیغ و اقامتِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی ہو یا حقوق اﷲ کی بجا آوری سماجی اقدار کا معاملہ ہو یا مذہبی اعتقادات کا الغرض جس جس گوشے کو جس جس زاویے سے بھی دیکھا جائے اس میں حسنِ توازن جھلکتا نظر آئے گا۔اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔

اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ )خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:”اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا” ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی کو عام کیا تو )اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:”بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں”کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔ یہاں تک کہ خطبہِ حجۃ الوداع کے موقعے پر ))لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى((1 ترجمہ:”کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے”،کے انقلابی نعرے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور اس جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا جس میں اپنی شناخت کو کسی سعی و عمل کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا یعنی کوئی کالا گورا نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عجمی عربی بن سکتا ۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ ایچ- جی-ویلز(H.G.Wells)2 اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف کرتا ہے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before also, and we find a lot of them in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Muhammad who for the first time in history established a society based on these principles.”
ترجمہ:”اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیحِ ناصریؑ کے ہا ں بھی ملتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا”
لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ )وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: ۱۴)ترجمہ:”اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے” کے مصداق لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا۔ مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا”۔ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔

اختلافِ رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے) وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ( (سورۃ ھود:118)ترجمہ:”اگر آپ کا رب چاہتا تو بنا دیتا لوگوں کو ایک ہی امت، مگر وہ اختلاف میں ہی رہیں گے”۔کا مل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو یا پھر اس مجمعے میں تمام انسان ایسے ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہیں اور) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا( (سورۃالنساء:58)ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں(مشوروں) کو لوٹادو ان کے اہل کی طرف”۔ پر بھی عمل نہ کریں۔ اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے اس نے فطری جذبے کو دبایا نہیں ہے بلکہ صحیح رخ دیا ہے۔ اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔نبی اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں بھی انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اختلاف کیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں پیش آمدہ نئے دینی امور ، اجتہادی مسائل اور تعارض ِ آیات و احادیث کے فہم میں اختلاف ہوا۔ یہاں تک کہ روز مرہ کے اعمال جیسے نماز و روزہ کے فروعی و جزئی امور پر بھی اختلافات ہوئے اور ان مباحث کا ذکر بھی ملتا ہے۔پھر یہ اختلاف تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ بعض امورمیں تو حلال حرام تک میں اختلاف ہوا۔ مگر قابلِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا۔ نہ کسی شخص یا گروہ نے مخالفین کو باطل کہا نہ سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔قرآن وسنت کے مطابق ایک عام مسلمان غیر مسلموں کے حوالے سے بھی تعصب و نفرت کا حامل وداعی نہیں ہو سکتا ہے، اسلام واضح طور ایک غیر مسلم کے مقابلے میں مسلمان کی ناحق حمایت کی ممانعت کرتا ہے۔قرآن حکیم میں فرمایا گیا:
اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو، انصاف کرو، یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔{المائدہ:۵:۸}
ایک دوسری جگہ فرمایا:اور کہو! میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں ، اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمھارا بھی؛ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔{الشوریٰ۴۲:۱۵}
دین کا صحیح فہم رکھنے والا عالم متعصب نہیں ہو سکتا۔مسلم اور دیگر متعدد محدثین کی روایت میں حضوراکرم ﷺکا فرمان ہے:
جو شخص کسی اندھے جھنڈے تلے لڑا؛ اپنی کسی عصبیت کے لیے غصے میں آیا ؛اپنی عصبیت کے لیے لوگوں کو دعوت دی ؛ اپنی عصبیت کی مددکی؛پھر قتل کر دیا گیا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ {مسلم، رقم۱۸۴۹،نسائی، رقم۱۴۱۴؛احمد، رقم۱۳۹۷وغیرہ}
آپﷺ نے فرمایا ؛ ”جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی ، وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر لڑا ، وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر مرا ، وہ ہم میں سے نہیں“۔{ابو داود}

اسوہ رسول ﷺ اور صحابہ کرام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سچائی کے اظہار اور حق و انصاف کے معاملے میں غیر مسلموں کے حوالے سےبھی کبھی تعصب و عناد کا شکار نہیں ہوئے۔روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضورﷺکے سامنے مسلمان اور یہودی کا مقدمہ آیا،آپ نے دونوں کا موقف سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔

مطلق عصبیت مذموم نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخی اور فطری عمل ہے اور یہ ہمیشہ رہے گی۔ آج کی عصبیت دانائی پر مبنی ہے جو مفادات کے تابع ہے،یہ عصبیت جاہلیہ سے بھی بدترین شکل ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ بے تعصبی اور رواداری کی اسلامی تعلیم اور اسوہ رسول مسلمانوں کے لیےمشعل راہ ہے ۔سب اہلِ اسلام کو یہی رویہ اپنانے کی دعوت ہے،بالخصوص ایک عالم کو تولازماًبے تعصب اور روادار ہونا چاہیے کہ علم وعرفان جاہلیت اورتعصب کی ضد ہے۔عصبیت سے نکلنے کے لیےمخالف مسلک کے اکابر کی عالمانہ تحریرات وبیانات اوران کےعلمی کام سےبھی استفادہ کرناچاہیے۔دوسرے کےمطالعے،ان کی علمیت کےاعتراف اور اپنوں کی خطاوَں پرنگاہ ،رواداری وہم آہنگی کےفروغ اورانتہا پسندی ویک رخی سوچ کے خاتمے میں بہت مددگار ہوگی۔

معروف موَرخ ابن خلدون کے نزدیک عصبیت ایک فطری عمل ہے کیونکہ ہر ایک فرد آفت ومصیبت کے وقت اپنے گروہ یا فرقہ کی جانب رخ کرتا ہے۔اگرمختلف مسالک اپنی پہچان کے لئے اپنے اپنے فرقہ پر قائم رہتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔اسلام میں عصبیت جاہلیہ کی مذمت کی گئی ہے جس میں اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے غلط استدلال دیا جائے اور دوسروں کی خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ تعصب سے نکار ممکن نہیں مگر اس کی حدود مقرر کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ تعصب سے معاشرتی عدل یا عدل اجتماعی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مثلا مسلکی یا نسلی تعصب کی بناء پر اہل کو ناہل قرار دینا اور ناہل کو اہل قرار دینا، یہ بہت برا ظلم ہے۔ اسی طرح مذہبی رسوم اور عبادات کی ادائیگی میں اگر کسی دوسرے انسان کی آزادی اور آرام میں خلل پیدا ہو رہا ہو تو کیا ایسی عبادت جائز ہے۔ اپنی جماعت اور گروہ کی حمایت میں انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے!اس بات پر اصرار کرنا کہ حق میری جماعت اور گروہ میں محصور ہے، باقی سب کچھ باطل اور قابلِ نفرت ہے؛ظلم و زیادتی پر بھی اپنے فرقہ سے متعلق لوگوں کی اعانت کرنا اور دوسرے فرقہ کے لوگوں کے بارے میں متعصب رویہ اختیار کرنا عصبیت جاہلیہ کی صورت ہے ۔دوسرے کے عقیدے و نظریے کااحترام کرنےاوراختلافات کونزاعات میں بدلنےسےبچانے کی باتیں بہت ہوتی ہیں،لیکن عمل او ر رویوں میں اس کا ظہور بہت کم ہوتا ہے۔قول و فعل میں تضاد علمائے کرام کے ہر گزشایان شان نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے