پرچون فروش کی دیانتداری اور قومی ریاست کی مالیات

گلی کا نکڑ مڑتے ہی احمد علی کی دکان تھی۔ دکان کیا تھی۔ سڑک پہ بہتی بدرو پر لکڑی کے چھوٹے بڑے تختے جوڑ کر ایک پھٹا پرانا کمبل ڈال لیا تھا۔ یہیں پر پان کی کلھیاں دھری تھیں۔ پیتل کے مخروطی برتن میں پان کے پتے تیرتے تھے۔ بچوں کے لیے ریوڑی سے لے کر کاغذ میں لپٹی سستی ٹافیاں تک موجود تھیں۔ عقب میں قائداعظم کی ایک خوبصورت تصویر جانے کب سے چسپاں تھی۔ سفید ،سنہرے ، لال اور نیلے رنگوں کی وردی پہنے حضرت قائداعظم ایک گھوڑے پر تشریف فرما تھے اور بدن کے مختلف حصوں سے آویزاں ہتھیار اشارہ کرتے تھے کہ نئی زمینوں کی فتح کا ارادہ ہمارے قائد نے باندھ لیا ہے۔ احمد علی دکان میںبائیں ہاتھ کی گود میں لکڑی کی ایک تختی ہوتی تھی جس پر وہ اجنبی زبان میں کچھ لکیریں کھینچتا تھا۔ معلوم ہوا کہ احمد علی نے بچپن میں دھرم شالے میں تعلیم پائی تھی۔ یہ رسم الخط دیوناگری کا ہے۔ یہاں اس زبان کو احمد علی کے سوا کوئی نہیں سمجھتا تھا اور لطف یہ کہ ان آڑھی ٹیڑھی لکیروں کو دیکھ کر احمد علی گاہک کو سابقہ بقایا اور ادھار کے بارے میں جو کچھ بتاتا، اسے تسلیم کر لیا جاتا۔ بھائی احمد علی کی تختی ویانت داری کا نشان تھی۔

مشکل یہ ہے کہ ہم نے ریاست کے کاروبار کو دھوبی کے کپڑے لکھنے والی کاپی اور بھائی احمد علی کی نجات المومنین تختی کے مترادف سمجھ لیا ہے۔ کچھ اس طرح کی تصویر ہم نے باندھ رکھی ہے کہ وزیراعظم سمیت جملہ ارکان حکومت اپنے دفاتر میں بڑی سی غلک رکھے بیٹھے ہیں۔ جسے نوازنا چاہتے ہیں مٹھی بھر نوٹ غلک سے اٹھا کر دے دیتے ہیں۔ کچھ کو بتا دیا جاتا ہے کہ یہ قرض حسنہ ہے ، سود تو خیر جائز نہیں ، ضرورت ختم ہونے پر اصل زر واپس کر جانا۔ اسی طرح پبلک اکائونٹ کمیٹیاں ہیں جہاں ارکان مختلف مالی امور پر سوال اٹھاتے ہیں اور انہیں کماحقہ جواب مل جاتا ہے۔ ہماری رائے میں پبلک اکائونٹ کمیٹیاں بھی کسی قدر پیچیدہ طریقہ کار سے چلائی جاتی ہیں۔

پیچیدگی سے ہمیں کوفت ہوتی ہے۔ پیچیدگی جہاں آئی سمجھو، کسی کی داڑھ گیلی ہوئی۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ میٹر ریڈرسے حسب منشا نتائج لینے کے لیے اسے پچاس روپے دینا پڑتے ہیں۔ چوک میں ٹریفک والا اشارہ کاٹتے ہوئے روک لے تو اسے کچھ روپے مٹھی میں بند کر کے دینا ہوتے ہیں۔ اگلے روز امرود خریدے تھے ۔ دکاندار نے نظر بچا کر دو تین خراب دانے نیچے کی طرف کھسکا دئیے۔ بددیانتی کی یہ وہ صورتیں ہیں جن سے ہمیں براہ راست واسطہ پڑتا ہے اور ہم نے اپنے بے پناہ سیاسی شعور کی بنا پر فیصلہ کر رکھا ہے کہ میٹر ریڈر ، ٹریفک وارڈن ، ریلوے کے کلرک اور پھل فروش کو پہلا موقع ملتے ہی پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ کیوں نہ ہو ہم نے ان احباب کی بددیانتی اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے۔ بددیانتی کی اور صورت بھی ہے جس کے بارے میں ہمارا یقین ’ـہو نہ ہو ،کچھ گڑبڑ ضرور ہے ‘۔ کی سرحدوں تک پہنچتا ہے۔ ایو ب کھوڑوکے خلاف بدعنوانی کے باسٹھ مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ سیٹھ قاسم نے اسکندر مرزا کی اہلیہ کو جو نولکھا ہار پیش کیا تھا اس ہار کی داستان سنانے میں ہماری دو نسلیں بوڑھی ہو گئیں۔ ایوب خان کا گندھارا اور یحییٰ خان کا دادرا حبیب جالب کی کرامت سے بدعنوانی قرار پایا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بدعنوانی ہوئی یا نہیں لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ ہم بدعنوانی کی سوجھ بوجھ سے محروم ہو گئے۔

سیاست میں بددیانتی کا مفہوم سیاست ہی کی طرح پیچیدہ ہوتا ہے۔ اسے آنوں روپوں میں تولنا مشکل ہوتا ہے۔ آنوں روپوں کی ہیرا پھیری اور اپنے اختیار سے ناجائز مالی فائدہ اٹھانا یقینا بدعنوانی ہے لیکن یہ بدعنوانی کی سادہ ترین صورت ہے اور اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ لیاقت علی خاں کی کوتاہیوں میں مالی بدعنوانی کا ذکر نہیں تھا۔بعض مبصرین یہ الزا م عائد کرتے ہیں کہ لیاقت علی خاں نے آئین کی تدوین میں روڑے اٹکائے۔ زرعی اصلاحات کا راستہ روکا ۔ حزب اختلاف کو خاموش کرایا۔ لاکھوں کی تعداد میں وطن واپس آنے والوں کو ثقافتی حساسیت کے اعتبار سے آباد نہیں کیا۔ آئینی ڈھال اور جمہوریت کے سائبان سے محروم ہو کر وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے اور انہیں شہید کر دیا گیا۔ ان کے بینک اکائونٹ میں چند سو روپے بھی نہیں تھے۔ا سکندر مرزا کی دیانت داری لندن کے ایک ہوٹل میں خانساماں کی نوکری کرنے سے متعین نہیں ہو گی۔ اسکندر مرزا نے اقتدار کی چھڑی دکھا کر ری پبلکن پارٹی کھڑی کی تھی۔ نرسری کے گملوں میں اگنے والی سیاسی جماعتوں کی یہ روایت بدعنوانی کی لغت میں اسکندر مرزا کی دین ہے۔ اکل و شرب کے کچھ قصے چھوڑ کر ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یحییٰ خان صاحب ایک بہترین سپاہی تھے اور مالی طور پر دیانت دار تھے۔ تسلیم … لیکن یحییٰ خان کی بددیانتیاں روپے پیسے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ انہوں نے ایوب خان کو دستور منسوخ کرنے پر مجبور کیا۔ انتخابات میں جوڑ توڑ کی کوشش کی۔ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم پر اپنی صدارت کی شرط عائد کر دی اور جب جنگ کرنا پڑی تو یہ اچھا سپاہی جنگ ہار گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ضیاالحق نے دھڑا دھڑ وائٹ پیپر شائع کئے۔ ایک کھوٹے سکے کی مالی بددیانتی ثابت نہیں کر سکے۔ بھٹو صاحب کے سیاسی کیریئر میں جا بجا سیاسی اور جمہوری دیانت داری کے اصولوں سے انحراف نظرآتا ہے۔

جنرل ضیاالحق کا عہد پارسائی ، تقویٰ اور ثقاہت کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی احتراماً زیادہ بات نہیں اٹھانی چاہیے۔ تین معمولی نکات پیش ہیں۔ (الف)1985 ء کے ریفرنڈم اور الیکشن ، (ب)افغان مجاہدین کی امداد کے لیے ملنے والی رقوم کا کوئی ریکارڈ اور (ج)اوجڑی کیمپ کی رپورٹ۔ غلام اسحاق خان پیشے کے اعتبار سے اکائونٹس کے آدمی تھے… حرفوں سے بنے ہوئے اور آنے پائی سے ہمہ وقت لیس ۔ آئی جے آئی بنوا کر اسکندر مرزا کی روایت انہوں نے تازہ کی۔ پاکستان کی تاریخ کے واحد انتخابات جنہیں سپریم کورٹ نے دھاندلی زدہ قرار دیا۔ اور پھر ایک نہیں دو اسمبلیاں توڑ کر عشرہ زیاں کی بنیاد رکھی۔

جدید مالیات ایک نہایت پیچیدہ مظہر ہے۔ کسی ملک کا قرضے میں ڈوبے ہونا اس کی معاشی تباہی کا بدیہی اعلان نہیں ۔ درآمدات کا بہت زیادہ ہونا بذات خود خامی نہیں ہے۔ انتہائی امیر اور انتہائی غریب میں فرق کو سمجھنے کی اپنی حرکیات ہیں۔ سرمایہ کاری کے اپنے قرینے ہیں۔ انفراسٹرکچر کا اپنا کردار ہے۔ عوامی خدمات کی صورت حال ایک اور دنیا کی کہانی ہے۔ ہم نے بھائی احمد علی کی دکان پہ رکھی تختی کو دیانت داری کا حرف آخر جان لیا ہے۔ آج کی دنیا میں دیانت داری کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انفرادی دیانت داری اور سرمایہ دار معیشت کی پیچیدگیوں میں فرق کرنا ضروری ہے ورنہ ہم سب منہ اٹھا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر زور زور سے روتے رہیں گے اور جنگل میں برف جمتی چلی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے