افتخارؔ مغل کی شاعری، فکروفن کا مختصر جائزہ

شعری تخلیقات میں فکری تنوع جہاں تخلیق کو تخصیص ومعتبری کی سند عطا کرتا ہے ،وہیں فنی چابک دستی ومہارت اسے قبولیت کے اعلیٰ منصب تک پہنچانے میں بنیادی واہم کردار ادا کرتی ہے ۔فنی مہارت کے بغیر خیال اور جذبے شعری قالب میں اولاًتو ڈھالے ہی نہیں جاسکتے اورثانیاً اس میں تاثیر کا ہونا بعید از قیاس ہے ۔شعری فن ہی شعر اور نثر نگار کے درمیان تمیز وتخصیص کی لکیر کھینچتا ہے ۔بڑی ادبی تخلیقات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ان کے تخلیق کار اپنے فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔اپنی اسی مہارت کی بنا پر وہ دوسروں سے ممتاز اور معتبر ٹھہرے ۔میر تقی میرؔ کی سہل نگاری جہاں اُس کی تخصیص کا باعث بنی تو وہیں غالب ؔ کی رمزیت وایمائیت میں اسے ’’علیٰ کل غالب‘‘کا مقام عطا کیا ۔

اس فکری و فنی رنگا رنگی اور مہات کے آئینے میں اگر ہم افتخارؔ مغل کی شاعر ی کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں ایک طرف تو فکری و موضوعاتی اعتبار سے متنوع رنگ نظرآتے ہیں تو دوسری طرف فنی اعتبار سے وہ ان اساتذہ سخن کی بھرپور خوشہ چینی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔جن کے کلام موزوں نے انھیں ادبی دنیا میں شہرتِ دوام کا منصب عطاکیا ۔افتخارؔ مغل کی شاعر ی میں محبت کا موضوع غالب ہے جو دیگر اسباب وعوامل زندگی کی تخلیق کا سبب بھی ہے ۔افتخارؔ مغل کی شاعر ی نے فکری سطح پر زندگی کے وہ تمام رنگ اور پہلو بیاں ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی عبارت ہے ۔ان میں محبت اگر جزو اعظم ہے تو معیشت ،سیاست اور مذہبی اقدار کے علاوہ وہ تمام معاشرتی رویے بھی موجود ہیں جو زندگی کا خاصاہیں۔احمد ندیمؔ قاسمی نے افتخارؔ مغل کے اسی معاشی اور فکری شعور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’افتخارؔ مغل اپنے معاشرے کی اذیت ناک معاشی صور تِ حال سے غافل نہیں اُس نے زرعی معاشرے کے تخلیقی کردار ،کسان کی زندگی کی تصویر ان سچے الفاظ میں کھینچی ہے ۔

’’میں وہ ہارا ہوا ہاری ہوں
کہ جس نے اس زمیں بے زراعت میں
لہو بویا ہے
مگر کچھ بھی نہیں پایا‘‘

میرے خیال کے مطابق افتخارؔ مغل کے یہ الفاظ صرف کسان ہی کا المیہ نہیں بلکہ اس مزدورکی بے ثمر زندگی کا بھی آئینہ ہیں جو اپنی ساری زندگی سرمایہ دار کی تجوری بھرنے کے لیے مشینوں سے لڑتا ہے اور اپنی حیات کا سونا پسینے کی صورت بہا کر بھی خالی ہاتھ رہتا ہے۔

فنی اعتبارسے افتخارؔ مغل کی شاعری میں وہ تمام لوازمات بھرپور انداز میں اپنی چمک دمک ظاہر کررہے ہیں جو خیال کو کلامِ موزوں میں ڈھالتے ہیں اور قاری کو اپنے سحرمیں جکڑ لیتے ہیں ۔شاعری میں صنائع وبدائع کا برمحل استعمال اسے موثر اور بامعنی بناتا ہے تو افتخارؔ مغل نے ان تمام صنعتوں کا پوری مہارت سے موثر استعمال کیا ہے ۔افتخارؔ مغل کی شاعری کا فنی اعتبارسے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انھوں نے کم وبیش اُن تمام صنعتوں کو اپنے اشعار میں بڑی خو ب صورتی سے برتا ہے جو شعری حسن کو دوبالا کرنے میں مرکزی وبنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ان صنائع میں صنعت تضاد ،صنعت ترافق ،مراعات النظیر،تکرار لفظی کے علاوہ تشبیہ واستعار ہ ،کنایہ اور تلمیح کے علاوہ مختلف تراکیب بھی شامل ہیں ۔ان تراکیب میں بعض بالکل نئی ہیں جو شاعر کی قوت تخلیق اور فنی مہارت پر دال ہیں ۔

’’صنعت ترافق ‘‘کا استعمال فنی اعتبار سے ایک مشکل کام ہے افتخارؔ مغل کی مختلف غزلوں کے مطلعوں میں اس صنعت کا جا ن دار اور بامعنی استعمال اُن کی مہارت کا آئینہ دار ہے مثال میں اُن کی چند غزلوں کے مطلعے پیش ہیں۔
’’سبھی فساد ہیں تن میں لہو کے ہونے سے
بلا کا شور ہے اس آب جو کے ہونے سے
اور
کسے خیال تھا میلے کا اس جھمیلے میں
تمام خلق اسے دیکھتی تھی میلے میں

درج بالا دونو ں مثالوں میں دیے گئے اشعار کے مصرعوں کو آپس میں بدل لیں تو بھی شعری معنویت اپنی جگہ اسی طرح برقراررہتی ہے۔صنعت ترافق کے ساتھ ساتھ افتخارؔ مغل نے اپنے اشعار میں صنعت تضاد اور مراعات النظیر کا بھی خو ب صورت اور مؤثر استعمال کیا ہے۔

’’کسے فراغ کے ناپے محیط عرصہ عمر
کسے دماغ ! گل ماہ وسال ہوجائے‘‘
اور
تمھارا سودا اگر سرمیں ہے تو میں بھی ہوں
یہ مشت خاک بدن ہے سویہ ہوالے جائے‘‘

میں عرصہ عمر اور ماہ وسال کا استعمال مراعات النظیر کی بہترین مثالیں ہیں اور صنعت تضاد کا استعمال بھی مختلف اشعار میں نظر آتا ہے

’’وہ تیرے وصل کی بارش ،وہ تیرے روپ کی دھوپ
کمال ہو جو وہ موسم ،بحال ہو جائے‘‘

افتخارؔ مغل کے ہاں صنعت تکرار بھی موجود ہے اور یہ تکرار لفظی شعر میں نغمگی اور ترنم پیدا کرتی ہے۔
’’میں قریہ قریہ پھرا گردباد بن کے جہاں
اسی زمین پہ پرچم صفت اُٹھا ہوں میں‘‘

اس کے علاوہ بھی افتخارؔ مغل کی شاعر ی نے مختلف صنائع کا استعمال موجود ہے جس میں صنعت لف ونشر ،نادر تشبہات واستعارہ اور کنایہ شامل ہے۔افتخارؔ مغل کے شعری فن کا محاکمہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں کہ انھوں نے جہاں مختلف تراکیب کا استعمال کیا ہے جن میں مختلف قدیم وجدید تراکیب شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ چند تراکیب ایسی بھی ہیں جو اُن کی اپنی اخترا ع ہیں۔اس کے علاوہ افتخارؔ مغل نے جہاں غزل کی مختلف بحور میں طبع آزمائی کی ہے وہیں اُن کی طویل اور مختصر بحروں میں خوب صورت اور بھرپور غزلیات موجود ہیں ۔طویل بحروں میں کہی گئی غزلیات کے چند اشعار بہ طور نمونہ پیش ہیں ۔

’’ابھی تک نہ سلجھی ،شروعات میں اک گرہ پڑگئی تھی
ملاقات تھی اور ملاقات میں اک گرہ پڑگئی تھی ‘‘
اور
’’ایک میں ہوں اور ایک دوسرا ہے مرا،ایک پیکر میں بستے ہیں دواجنبی
آج پہلی دفعہ جانے کیا سوچ کر میں نے اُس سے کہا ’’کچھ کہو اجنبی ‘‘‘‘

اردوشاعری میں میر تقی میر ؔ کو سہل ممتنع کا امام مانا جاتا ہے ۔میرؔ سے سہل ممتنع کا یہ فن ناصرؔ کاظمی تک پہنچا جنھوں نے اسے فن کارانہ چابک دستی سے استعمال میں لایا ۔افتخارؔ مغل کی شاعری میں میرؔ کی محبت کی فراوانی ووفور توجھلکتا ہی ہے وہی انھوں نے مختصر بحور کو بھی پوری معنویت اور حسن سے برتا ہے ۔

’’موج ومستی سے واسطے کیا ہے
ہم کو دریاؤں نے دیا کیا ہے‘‘
اور
’’اک کہانی ہمیں بھی کہنا تھی
خیر ،تم خوش رہو !نہیں کہتے‘‘

افتخارؔ مغل کی شاعری میں بیانیہ طرز اظہار کے علاوہ علامتیت کا عنصر بھی موجود ہے خصوصاً اُن کی نظموں میں یہ علامت نگاری انسانی فکرو شعور کے کئی درکھولتی ہے ۔اپنی نظم ’’موت‘‘میں زندگی کی تلخیوں اور حیات معنوی کی پیچیدگیوں کا انھوں نے علامات سے یوں ظاہر کیا ہے۔

’’میری منڈیر پر اک نظم آکے بیٹھی ہے
یہ نظم جس کی شباہت ہے فاختہ کی سی
اسے خیال کے ٹکڑوں کی چوگ ڈالتا ہوں
میں اوک میں رکھ کر جگر کا خون اُسے پلانا چاہتا ہوں
مگر اس کی چونچ ہلتی ہی نہیں
مُصر ہے کہ مجھے ساتھ ہی اُڑا لے جائے !

اس کے علاوہ اُن کی نظم ’’روشنی دائرے بناتی ہے ‘‘اور’’ لوہابے اولاد رہے گا ‘‘علامت نگاری کی زندہ مثالیں ہیں جو اُن کی فنی صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں ۔

مختصر یہ کہ افتخارؔ مغل نے اپنی شاعری میں فکر وفن کا گہرا اور بامعنی اظہار انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتا ہے ۔انھوں نے اپنی مختصر زندگی میں ادب کی تقربیاً تمام اصناف خصوصاً شاعری میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا جو اُن کی محنت ،ذکاوت وذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے