شہر کراچی میں پانامہ کیس کے فیصلے سے قبل مارچ کے اختتام اور اپریل 2017 کے آغاز میں روز کی بنیاد پر ہونے والی ہلچل سے محسوس ہورہا ہے کہ کہیں کچھ نہ کچھ پک رہا ہے یا پکایا جارہا ہے . گزشتہ چند روز سے ہونے والے اقدامات سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی جان بوجھ کر کراچی کے حالات خراب کرنا چاہتا ہے .
کافی عرصہ قبل کراچی کی عوام کی جانب سے مسترد کی جانی والی جماعت اسلامی کا یوں اچانک عوامی مسائل پر آواز اٹھانا اور سیاسی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوۓ ﮈرامائی صورتحال پیدا ہونا اور پھر ﮈرامائی گرفتاری اور رہائی ہونا تشویشناک بات ہے کیونکہ انتیظامیہ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے مقامی رہنماوں کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا ,اگر یہ صحیح بات ہے تو انھیں رہائی ملنا ایک سوالیہ نشان ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مقدمہ کیوں نہیں بنایا گیا , کیا یہ عمل محض جماعت اسلامی کو عوامی خیرخواہ بنا کر پیش کرنا تھا ؟
حالانکہ اسی روز 31 مارچ 2017 کو ہی پارہ چنار میں بم دھماکے سے کئی افراد شہید و زخمی ہوۓ تھے جس پر شہداء کے لواحقین کی جانب سے پرامن احتجاج کیا جارہا تھا اس کے باوجود میﮈیا کی نظریں صرف جماعت اسلامی کے احتجاج پر تھیں .
یکم اپریل 2017 کو جامعہ کراچی کے ٹیچر سوسائٹی کے اساتذہ کرام اپنے ساتھی ٹیچر کی غیرقانونی حراست پر پریس کانفرنس کرنے کے لیے پریس کلب جارہے تھے کہ اچانک خبر آئی ٹیچر سوسائٹی کے رکن اور جامعہ کراچی کے حاضر سروس استاد پروفیسر ﮈاکٹر ریاض اور پروفیسر مہرافروز مراد صاحبہ کو قانون نافز کرنے والے ادارے نے ایم کیوایم لندن سے رابطے کے شبے میں حراست میں لےکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے دوسری جانب ایم کیوایم کے کنوینر جناب ندیم نصرت نے فوری طور پر میﮈیا پر آکر وضاحت دی کہ ٹیچر سوسائٹی کے اراکین کا ایم کیوایم سے کوئی تعلق نہیں . پریس کانفرنس کے لیے ﮈکٹر ریاض , اور پروفیسر مہر افروز مراد کی گرفتاری کے بعد ﮈاکٹر نوین حیدر صاحبہ نے اپنے دیگر اساتذہ کےساتھ پریس کانفرنس مکمل کی پہلے یہ پریس کانفرنس صرف ایک پروفیسر کی غیرقانونی حراست کےحوالے سے تھی جو بعد میں تین پروفیسرز کی غیرقانونی حراست میں تبدیل ہوگئی .
جس طرح یکم اپریل کو ﮈاکٹر ریاض اور دیگر کو حراست میں لیا گیا اسی طرح بزرگ پروفیسر کو 22 اکتوبر 2016 کو کراچی پریس کلب سے گرفتار کیا گیا تھا جو تاحال حراست میں ہیں اور پروفیسر حسن ظفر کو ایسے کیس میں حراست میں لےرکھا ہے جس کا نہ سر ہے نہ پاؤں .
پہلے صرف ایم کیوایم کا رکن ہونا ہی جرم تھا آج ایم کیوایم کے ایک بزرگ پروفیسر راہنما ﮈاکٹر حسن ظفر عارف کی انسانی بنیادوں پر آواز اٹھانا بھی جرم سا لگ رہا ہے حالانکہ ان اساتذہ کی پوری زندگی امن کا پیغام دینے اور اپنے طالبعلموں کو تعلیم دینے میں گزرگئی اور جس عمر میں ہمیں انھیں اعزازات سے نوازنا چاہیے تھا ہم انھیں ہتھکڑیاں پہنا رہے ہیں صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے سیاسی جماعت میں شمولیت کی , حالانکہ ہم ماضی دیکھتےرہے ہیں جہاں سے جامعہ کراچی کے اساتذہ کرام کو گرفتار کیا گیا اس پریس کلب پر کس طرح سے کالعدم جماعت کے نام نہاد راہنماؤں کو ہار پھول گلدستہ پیش کرکے خوش آمدید کیا جاتا رہا ہے , زیادہ دور نہیں گزشتہ 4 ماہ میں کالعدم جماعتیں انکے راہنما ان گنت مرتبہ پریس کلب کے باہر احتجاج ریلیاں , جلسہ , اور پریس کانفرنس کرتے رہے ہیں.
پاکستان میں کالعدم دہشت گردوں کی حمایت کرنا یا پھر دہشت گرد کالعدم تنظیموں یا داعش جیسی تنظیم کا ساتھ دینے کا اعلان کرنا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا آج ایک سیاسی جماعت کا ساتھ دینا یا پھر سیاسی جماعت کے کسی کارکن کی حراست پر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ایک سنگین جرم بنادیا گیا ہے.کالعدم جماعتیں کھلےعام ریلیاں جلسے جلوس , پریس کانفرنس کرسکتی ہیں مگر انسانی حقوق کی بنیادوں پر لاپتہ افراد اور ایک سیاسی جماعت کے رکن کے لیے کسی کو ایک پریس کانفرنس بھی نہیں کرنے دی جاتی ہے کیا یہ دہرا معیار نہیں , یہ عمل انسانی حقوق سلب کرنے کے مترادف نہیں.
ﮈاکٹر ریاض کو حراست میں لینا اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تواتر سے آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں اور اب ان کو لاپتہ کردینے سے عوام میں بےچینی پائی جاتی ہے کہ کیا کراچی کا امن جان بوجھ کر خراب کیا جارہا ہے.
خدارا ہمیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو.