فریحہ سید
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کر تقدیر کا بہانہ
مسئلہ جبر و قدر ہمیشہ سے ہی ایک معرکہ الارا مسئلہ ہے اس مسئلہ پر مختلف فلسفیوں نے اپنی اپنی سوچ کیمطابق تبصرہ کیا ہے۔
تقدیر پرستی کے روایتی مفہوم نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔
آج امت محمدیہ میں مایوسی اور قنوطیت کی فضاء چھائی ہوئی ہے ، مگر یہ فضاء کب سے طاری ہوئی؟
جب بنو امیہ حکمراں بنے وہ خود کو ظل اللہ منوانا چاھتے تھے وہ اپنی رعایا کہ ذہن و دل میں یہ خیال راسخ کرنے کے خواہش مند تھے کہ انسان مجبور ہے ،
یہ سوچ یہ فکر نسل در نسل ارتقاء پزیر ہوتی رہی اور ہماری موجودہ نسل کے زہن و شعور کا حصہ بنی انسان نائب و ناب خداوند کریم ہے ۔ اسے تقدیر کے زندانوں کا قیدی بنا کر نہیں بھیجا گیا اور قسام ازل ہی سے آزادی و خود مختاری اس کا مقدر ہے ۔ خالق کائنات نے لقد خلق الانسان فی احسن التقویم کا تاج پہنا کر اسے شرف بخشا اسے ضمیر کن فکاں اور تقدیر یزداں کا رازداں بنا کر اس کائنات پر اتارا گیا اور لیس الانسان الا ماسعی کا اعلان کر کے اس کے دست قدرت میں کامیابی کے رازوں کو پنہاں کر دیا .
میں نے ایک گنوار سے سنا کہ علم حاصل کرنا میرا مقدر نہیں تھا ،
میں نے فیل شدہ طالب علم سے سنا کہ فیل ہونا میری تقدیر کا فیصلہ تھا
میں نے ایک کسان سے سنا کہ اچھی فصل اگنا میری قسمت میں نہ تھ
ا ایک بیوپاری سے سنا بیوپار میں نفع میرے نصیب کا حصہ نہیں تھا
اور پھر میں ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی جب میں نے بڑے بڑے مفکرین سے سنا کہ عالم اسلامی کی ذلت و تباہی ان کے مقدر کا ستارہ ہے جسے ٹالنا ممکن نہیں۔
ہر کوئی تقدیر انسانی پر ماتم کناں ہے میں بھی ان قنوطیوں کی فہرست میں شامل ہونے جا رہی تھی کہ قرآن کے فکر و شعور کے نور نے ظلمتوں کو چیرتے ہوئے اجالا کر ڈالا اور آواز سنائی دی
اس وقت تک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت میں تغیر پیدا نہیں کرتا جبتک کہ وہ خود اپنی حالت کو بدل نہیں ڈالتی
آج جو لوگ اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں ان سے سوال ہے کہ تقدیر کا بہانا بنا کر عمل سے بے بہرہ ہونے والو یہ بتاو کہ فلسطین میں شہید ہونے والے مسلمان تقدیر کے مارے ہوئے ہیں؟
دس سالہ عراق کی جنگ میں شہید ہونے والے عراقی چیخ چیخ کر پکارتے ہیں کیا وہ بھی تقدیر کے مارے ہوئے ہیں ،
نیٹو کے کنٹینروں تلے کچلے جانے والے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے تقدیر کے مارے ہوئے ہیں؟
فاٹا ،خیبر ایجنسی ،ماڈل ٹاون، لال مسجد کے شہداء آہ و بکاء کرتے ہیں کیا ہم تقدیر کے مارے ہوئے ہیں
نہیں ہرگز نہیں ،عمل اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس نے کتنے ہی اانقلابات کی راہیں لامحدود کر دیں
ایران جیسے ملک مین تقدیر نے نہیں ، تدبیر نے انقلاب برپا کیا
سکندر اعظم نے تقدیر کو مات دیکر تدبیر کی ، اور دنیا فتح کی
نیپولین کی تقدیر میں ڈاکیے کی حیثیت سے اغاز ہے لیکن تدبیر ہی سے فرانس کا عظیم جرنیل بنا
ہٹلر کی قسمت میں ایک بڑھی کے گھر میں پیدا ہونا ہے لیکن تدبیر نے اسے جرمنی کا حکمراں بنایا
میسولینی ایک لوہار کے گھر پیدا ہوا لیکن تدبیر نے اسے اٹلی کا قائد بنا دیا
قائد اعظم نے چمڑے کے بیوپاری کے ہاں جنم لیا لیکن تدبیر نے انہیں عظیم رہنما بنا دیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان ایک اسکول کے غریب ہیڈ ماسٹر کا بیٹا تھا مگر تدیر نے اسے ایک عظیم سائنس دان بنایا اور میں نے ابراہم لنکن کو بال کاٹتے کشتی چلاتے کاٹتے دیکھا پر اسکی تدبیر نے اسے امریکہ کا صدر بنایا
انسان احسن الخالقین کی بہترین تخلیق ہے
اسے بنانے والے نے احسن التقویم بنایا تھا لیکن جب عمل سے بے بہرہ ہوا تو احسن التقویم مر گیا اور رہ گیا اسفل السافلین
جس کے ہاتھوں انسانی حرمت کی سفید چادر بار بار داغدار ہوئی
آج فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر شیعہ سنی فسادات کئیے جا رہے ہیں اور عقل کے اندھے یہ مسلماں دشمنوں کی تدبیروں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور اپنی تقدیر سمجھ کر سرخم کئیے ہوۓ ہیں
خدا راہ جاگو
خدا راہ اب بھی سنبھل جاو اور سوچو کہ
ہم ترقی اقوام کی صفوں میں کیون شامل نہیں ؟
کیوں مسلماں کے لیے ہی مسلماں کا خون ارزاں ہو چکا ہے ؟
کیا یہ تقدیر ہے؟
اگر یہ تقدیر ہے تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرو
جہاں انسانیت کی تذ لیل ہو
جہاں انسانیت کو مسخ کیا جا رہا ہو وہاں تقدیر پر ماتم کناں ہونے کی بجائے تدبیر کی ضرورت ہوتی ہے
اس سے پہلے کہ کوئی چنگیز کوئی ہلاکو تمہاری کھوپڑیوں کے مینار بنوائے ،
اس سے پہلے کہ سانحہ پشاور ،سانحہ ماڈل ٹاون ،سانحہ لال مسجد کی بھینٹ یہ معصوم چڑھ جائیں
اس سے پہلے کہ عافیہ صدیقی کی طرح کوئی بیٹی امریکہ کی جیل میں حل من ناصر ینصرنا کی صدائیں بلند کرتی دم توڑ جائے ،
اس سے پہلے کہ ستی ،کاروکاری، قرآن کے نکاح میں جکڑ دئیے جانے والی دختران ملت پکار اٹھیں
اور یہ آسماں تھر تھر کانپ اٹھے
خدا راہ تقدیر کا رونا چھوڑ کر تدبیر کئجیے
ورنہ عرش فرش سے بین کرتی صدائیں بلند ہوں گی
خبر نہیں کیا نام ہے اس کا خدافریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کر تقدیر کا بہانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریحہ سید
گجرات میں ایک اسکول میں لیکچرار ہیں ۔ انہوں نے اردو زبان میں ماسٹر کیا ہے ۔ وہ زمانہ طالب علمی میں نمایاں مقررہ رہیں ۔