آٹھ دہائیوں پر مشتمل بھرپور تحریکی زندگی گزارنے والے اس شخص سے مل کر لگتا ہے کہ بڑھاپے نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وہ استوار لہجے میں دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔مکالمے کے دوران وقفے وقفے سے ان کے چہرے پر پھیلتی شگفتہ مسکراہٹ ماحول میں تازگی کا احساس دلاتی ہے ۔ یہ عابد حسن منٹو ہیں۔ پاکستان کے ممتاز وکیل اور بائیں بازو کے نمایاں سیاست دان ۔تقسیم برصغیر کے وقت عابد حسن منٹوکی عمر پندرہ برس تھی، بہت سے اہم واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبھی نشیب وفراز انہوں نے کھلی آنکھ سے دیکھ رکھے ہیں۔ گنگا ہائی جیکنگ اورحیدرآباد سازش کیس جیسے تاریخی نوعیت کے حامل کئی مقدمات میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی جد وجہد کے دوران پس دیوار زنداں بھی دھکیلے گئے۔ عابد حسن منٹو کے تجربات و مشاہدات جاننے کے لیے چند دن قبل ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ان کے ساتھ تفصیلی نشست ہوئی ۔ بات ان کی سیاسی فکر سے شروع ہو کر تقسیم برصغیر کے مشاہدات، سرد جنگ کے خاتمے سے ماقبل و مابعد کے حالات ، سیاسی جد وجہد کی یادداشتوں اور ذاتی رجحانات سمیت کئی موضوعات تک پھیلتی چلی گئی۔ میں نے پوچھا کہ پون صدی قائم رہنے والا سوشلسٹ بلاک ٹوٹ گیا تو کیا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سوشلزم اپنی موت آپ مرچکا ؟ انہوں نے قدرے اطمینان کے ساتھ سوال سنا اور اپنی بات کچھ یوں شروع کی ۔ملاحظہ کیجیے:
’’مارکس ازم 1917ء پر فِکس نہیں‘‘
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے سوشلسٹ کیمپ ختم ہو گیا تھا۔ سوشلسٹ کیمپ کی شکست و ریخت کے بعد بائیں بازو کے کچھ سربرآوردہ لوگوں نے کہا کہ یہ زوال کچھ وجوہات کی بنیاد پر ہے،یہ سوشلزم کی شکست نہیں ہے۔ پھر ٹھیک دس سال بعد بلکہ نوے کے دہائی کے آخری برسوں میں ہی لاطینی امریکا میں ہیو گو شاویز وغیرہ کی قیادت میں سوشلزم کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔کیوبا میں فیدل کاسترو بھی اس نئی لہر کی مثال تھے ، معاشی ناکہ بندیوں اور محدود وسائل کے باجود وہ قائم رہے۔ پھر نئی صورت حالات کو دیکھ کر دنیا بھر کے سوشلسٹوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ یہ نیا سوشلزم کیا ہے؟ اس نوع کے کئی سوالات پیدا ہوگئے۔کئی ملک اس نئی لہر کے زیر اثر تھے ۔ اس کے بعد جب سرمایہ داری دنیا میں بحران آئے تو خود سرمایہ داریت کے حامی ماہرین نے کہا کہ یہ ماضی سے مختلف بحران ہے ۔ یہ عالمی معاشی بحران کا حصہ ہے اور اس کو دستیاب نظام میں ٹھیک کرنا مشکل ہے۔اس صورت حال میں اس دھرتی پربرنی سینڈرز جیسے سوشلزم کا نام لینے والے لوگ پیدا ہو گئے۔ 1917ء میں جس قسم کا سوشل ازم لایا گیا تھا ، اب سو برس بعد اس کی ہیئت اُسی طرح کی نہیں ہوگی ، تقاضے بدل چکے ہیں ۔ مارکس ازم کی بنیاد اس بات پر ہے کہ دنیا بدلتی ہے ، اس کے سیاسی و معاشی رجحانات بدلتے ہیں ، اس کے مطابق سوسائٹی آگے کی طرف جاتی ہے ۔ مارکس ازم کوئی جامد عقیدہ نہیں۔ اس کی اساس یہ ہے کہ ہم نے طبقاتی معاشرے کو ختم کرنا ہے۔کیسے کرنا ہے ؟ اس کے راستے ہر جدید زمانے اور معاشرے میں مختلف ہوں گے ۔ آج کی دنیا کے مختلف خطوں میں مارکسزم کی بنیاد پر اصلاحات کے طریقے وہاں کے حالات اور نظام کار کو دیکھتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ سوشلزم 1917ء کے واقعے پر فکس ہوئی ہے ، درست نہیں۔
’’سوشلسٹ بلاک ٹوٹنے سے میرے خواب بھی بکھرے‘‘
خواب کس کے بکھرے؟جو لوگ سوویت یونین کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ تھے انہی کے خواب زیادہ بکھرے لیکن یہ قدرتی عمل ہے کہ میرا خواب بھی بکھرا، اس لیے کہ سوشیو پولیٹیکل پلیٹ فارم پر کھڑی اتنی بڑی سلطنت کچھ داخلی تضادات حل نہ کر سکنے کی وجہ سے فیل ہو گئی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ اس ناکامی کی وجوہات کی جانچ ہونی چاہیے۔ ایک ایسی ریاست جس نے سب لوگوں کو روزگار،تعلیم اور صحت کی سہولیات دیں تو پھر وہ 70سال بعد ناکام کیوں ہو گئی ۔مارکسزم ہمہ وقت سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ موجودہ وقت میں کن تقاضوں کو ایڈریس کرنا چاہیے۔
’’ جو بھی استعماری قوتوں کا مخالف ہے وہ لیفٹسٹ ہے‘‘
دنیا میں قائم استعماری (جیسا کہ ابھی تک موجودامریکن بلاک )اور ان تمام قوتوں جن کی یہ کوشش ہے کہ تیسری دنیا تیسری ہی رہے اوروہ اس کا خون نچوڑتے رہیں ، بین الاقوامی تناظر میں ان سب قوتوں کی مخالفت کرنے والا بائیں بازو کا سمجھا جائے گا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مخالفت تو آپ کر رہے ہیں لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟ آپ کا ورلڈ ویو کیا ہے؟اگر آپ سوشلزم کے لیے 1917ء سے لے کر آج تک کے کامیاب و ناکام تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئے انداز میں کام کرتے ہیں تو آپ آج کے لیفٹسٹ ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں مزدور طبقے کی آمریت قائم کر دی گئی تھی۔ کیا کارل مارکس سمجھتے تھے کہ ہمیشہ مزدوروں کی آمریت قائم رہے گی۔تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
’’چین سوشلزم سے منحرف نہیں ہوا،پالیسی شِفٹ ہے‘‘
گفتگو کا رُخ چین کی بدلتی پالیسیوں کی طرف مڑا تو کہا:ابھی چائینیز کمیونسٹ پارٹی کی آخری کانگریس میں کہا گیاکہ ہم نے اتنا بڑا انقلاب کیا جو 1930ء سے شروع کر 1949ء تک پہنچ کر منتج ہوا،اس وقت ہم سمجھے کہ ہمارے ملک پر اب ہمارا قبضہ ہو چکا ہے ، اب ہم نے یہاں سوشلزم نافذ کر دیناہے لیکن اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوشل ازم یوں نہیں ہوتا، سوشلزم کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کھانے پینے سمیت بنیادی ضروریات زندگی دیں گے اور کھانے پینے کی چیزیں تو آپ کے پاس ہیں نہیں،آبادی ایک بلین سے اوپر ہے اور اکثریت دیہات میں رہتی ہے ۔اس صورت حال میں ہمی کیا کرنا چاہیے ۔ اب انہوں نے اپنی نئی پالیسی ترتیب دی ہے ۔ ان پر تنقید ہوئی کہ آپ اپنے راستے(سوشلزم ) سے ہٹ گئے ہیں تو انہوں نے کہا ہم پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ہم نے لوگوں کو جو دینا ہے اس کو پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
’’سوشلزم کا نعرہ ہمارے سماج میں اجنبی نہیں ‘‘
سوال یہ تھا کہ سوشلزم کا نعرہ ایک ایسے سماج میں کیسے پنپ سکتا ہے جہاں اکثریت مذہب کو مانتی ہو؟عابد حسن منٹو نے کہا :ہم نے اپنے ملک میں اجنبی آوازیں انگریزوں کے دور سے سننا شروع کیں۔ جس قسم کی جمہوریت یہاں موجود ہے ، اسلام میں تو اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔وہاں تو شورائی حکومتیں تھیں۔اس قسم کی جمہوری پارٹیاں نہیں تھیں ، اس قسم کے الیکشن نہیں تھے،یہ سب ہم نے قبول کیا ۔ اب سوائے دائیں بازو کے انتہائی رجعت پسندلوگوں کے کوئی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ جمہوریت نہیں ہونی چاہیے۔ جمہوریت تو سترھویں اٹھارھویں صدی کی پیداوار ہے اور سرمایہ دارنہ نظام میں داخلی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ سرمایہ داروں کے اپنے مفاد میں ہے۔ یہ ہمارے آئین کا حصہ بھی بنی، آئین اسلام کی بات کرتا ہے لیکن جمہوریت اس کی بنیادی شق ہے۔
’’ طبقاتی نظام سے پاک جمہوریت کا سوشلزم سے تضاد نہیں‘‘
جب آپ سماج کو ایک راستے پر چلانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کے ابتدائی درجے طے کر لیتے ہیں تو پھر آپ کو لوگوں کو انوالو کرنا پڑے گا۔ اپنی پارٹیوں اور سماج کے اندر جمہوری عمل جاری کرنا پڑے گا۔ کمیونسٹوں کی جانب سے ماڈرن ڈیموکریسی کی مخالفت صرف اس حد تک ہے کہ ماڈرن جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کام کرتی ہے جس کا فائدہ سرمایہ دار طبقات اٹھاتے ہیں ،اگر طبقات کو ختم کر دیا جائے تو پھر جمہور کو انوالو کرنے میں حرج ہی کیا ہے ۔
’’آمریت کے مقابلے میں ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ساتھ دیتے ہیں‘‘
جب تک سرمایہ داری نظام ملک میں موجود ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اس کے ٹُولز سرمایہ داروں کے پاس ہیں لیکن سمجھنا چاہیے کہ جمہوری حقوق صرف الیکشن نہیں ہوتے۔ہمیں آئین نے رائٹ ٹو آرگنائز دیا ہے اور اپنے نظریات کے پرچار کی آزادی دی ہے ، یہ جمہوریت کا حصہ ہے ۔ جمہوریت کے بہت سارے ایسے پہلو ہیں جنہیں بایاں بازو اور نچلے طبقات اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود جب تک جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلتی ہے تو اس کے بنیادی مفادات سے صرف سرمایہ دار ہی مستفید ہوتے ہیں۔ وہی حاکم رہتے ہیں ۔ اس لیے ہم اسے سرمایہ دارانہ جمہوریت کہتے ہیں لیکن جب اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کو توڑ کر مارشل لاء لگتا ہے تو ہم سب اس کی مخالفت کرتے ہیں۔کوئی بائیں بازو کاآدمی پاکستان میں مارشل لاء کو درست کہنے والا نہیں ملے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہماراملک اتنا پس ماندہ ہے کہ یہاں ابھی تک ایلیمنٹری ماڈرن انسٹی ٹیوشنز(اسمبلی اور بالادست عدالتیں) صحیح طرح سے قائم نہیں ہو سکے ہیں۔ ان اداروں کو کوئی چھیننے کی کوشش کرے گا تو اس کے خلاف ہم کھڑے ہوں گے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیسری دنیا کو تیسری دنیا سے آگے لے جانے کے اسباب پیدا کیے جائیں ۔ میں نے پوچھا: گویا آپ چھوٹی مصیبت(سرمایہ دار جمہوریت) اختیار کرتے ہیں تو کہا’اختیار نہیں کرتے بلکہ چھوٹی مصیبت کا اس وقت تک دفاع کرتے ہیں جب تک وہ بڑی مصیبت کے ساتھ لڑ رہی ہو ‘
’’پاکستان میں حکومتیں جاگیراداروں کی مدد سے بنتی ہیں اس لیے زرعی اصلاحات نہیں ہوتیں‘‘
جاگیرداری نظام کے خاتمے میں سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ ہم اسے کسی انقلاب کے ذریعے تو نہیں توڑ رہے بلکہ آئینی و قانونی راہ سے جد وجہد کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسمبلیاں اور قانون انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آخری عام انتخابات (2013ء)کا جائزہ لے لیں اور دیکھیں کہ اکثر منتخب ہو نے والے افراد کا تعلق فیوڈل اسٹاک سے ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ملک میں نئے بورژوائی(ہمارے ہمسائے نواز شریف وغیرہ ) بھی منتخب ہوئے تو یہ بھی جاگیر داروں کے بغیر اپنی حکومت نہیں بنا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جاگیرداری کے خلاف مؤثر کام نہیں ہوسکتا ۔ ماضی جو ایک دو بار زرعی اصلاحات کی گئیں وہ صحیح طور پر نافذ نہیں کرنے دی گئیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری فوج(جس کے بہت سے کاموں کی ہم تعریف بھی کرتے ہیں) خود زمینوں کی مالک ہے ۔اب ظاہر اگر آپ زمینوں کے مالک ہوں گے،ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز چلائیں گے تو پھر آپ ان کا دفاع ہی کریں گے۔ یہ سارا سیٹ اپ زرعی اصلاحات کے خلاف کھڑا ہے۔
’’مرکزی دھارے میں نظریاتی ہم آہنگ پارٹی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹریڈ یونینز منتشر ہیں‘‘
پاکستان میں ٹریڈ یونین کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین پولیٹیکل ویکیوم میں کام نہیں کر سکتی، پاکستان میں کسی ایسی نمایاں سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی میں، جو مزدور طبقے کے ساتھ تعلق رکھتی ہو، ٹریڈ یونین پروفیشنل ازم بن جاتی ہے،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ اور یہ سب ایسی سوسائٹی میں ہوتا ہے جہاں ساری کی ساری سیاسی قوتیں ان کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں۔ پھر وہ ان قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ، اسی سے ٹریڈ یونین ازم تباہ ہو جاتی ہے، دھڑے بن جاتے ہیں اور یہ مراعات حاصل کرنے کے ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
’’انجمن ترقی پسند مصنفین کا ایک گروہ عقیدت پرست تھا‘‘
ذرا پیچھے ماضی کی جھروکوں کا رخ کیا اورانجمن ترقی پسند مصنفین میں 40ء کی دہائی کے آخری برسوں میں پڑ جانے والی تفریق کی وجہ جاننا چاہی تو کہا:یہ فرسودگی کا سوال ہے ، یہ تمام لو گ وہ تھے جو اپنی سیاسی فکر کو عقیدہ بنا لیتے ہیں، وہ دراصل مذہبی روایت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں، سیاست میں مذہبی عقیدہ نہیں چلتا، عقیدے کی بنیاد تو ان چیزوں پر ہے جس سے آپ انحراف نہیں کر سکتے لیکن یہ کہ نظام ریاست کیا ہو گا ، نظام حکومت کیا ہو گا ، یہ چیزیں تو عقیدے کا حصہ نہیں ہو سکتیں۔ یہ چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ہمارے ہاں یہ ساری چیزیں عقیدے کا حصہ بنا دی گئی ہیں ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا ایک گروہ عقیدہ پرست تھا، انہوں نے 1935ء کے ترقی پسند مصنفین کے منشور کو تسلیم کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بہت سے ترقی پسند اہل دانش جو پاکستان میں رہ گئے تھے ، انہوں نے ذہنی طور پر تقسیم کو قبول نہیں کیا، ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں، جو دلی طور پر تقسیم کو قبول نہیں کرتے ۔
’’پاکستان کی تشکیل پر ایمان بننے کا سبب کیمونسٹ پارٹی کافیصلہ بھی تھا‘‘
1946ء کے آخر میں مسلم لیگ کافی متحرک تھی ، میں اس وقت راولپنڈی میں تھا ، مجھے بتایا گیا کہ کمیونسٹ پارٹی انڈیا نے تقسیم کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میرے لیے بڑی ری انفورس منٹ کا باعث تھا، میرا پاکستان کی تشکیل پر ایمان بننے کا سبب کمونسٹ پارٹی کا یہ فیصلہ بھی تھا ۔ پھرجب پاکستان بن گیا تو اس ملک کی مخالفت کرنے کا میرے پاس کوئی جوازنہیں تھا، اس میں کیا نظام نافذ کرنا ہے اس پر بحث البتہ ہو سکتی ہے ۔ میں تقسیم کے دنوں قریب 15 برس کا تھا ۔ پاکستان بنانے کے حق میں جلوس نکل رہے تھے ۔ میں بھی ایک جلوس میں والد کے ہمراہ تھا، جب قیادت گرفتار ہوئی تو ساتھ ہم بھی پکڑے گئے ۔ چھ سات دن بعد مجھے چھوڑ دیا گیا ۔ یہ میری پہلی اسارت تھی ۔ میں اس سارے عمل میں شامل رہا لیکن بہت سارے بائیں بازو والے ذہنی طور پر تقسیم کو قبول ہی نہیں کر سکے تھے کیونکہ وہ تحریک کا حصہ تھے ہی نہیں، وہ کانگریس کے قریب تھے باوجویکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا فیصلہ تھا کہ پاکستان کی حمایت کی جانی ہے۔
’’سکھ نوجوان گلی سے نکلا تو مشتعل ہجوم نے اسے قتل کر دیا‘‘
تقسیم کے زمانے میں راولپنڈی پنجاب کے اس حصے سے تعلق رکھتا ہے جہاں نہ تو کوئی بڑی زمینداری تھی، نہ کوئی انڈسٹری تھی، اور نمایاں طور پر یہ فوجی علاقہ تھا، فوج کی بھرتی ٹریننگ وغیرہ سب یہیں ہوتا تھا، تقسیم سے پہلے جب یہاں مسلم لیگ بنی تو اس وقت مسلم لیگ کے اندر یہ جھگڑا پڑا کہ ہمیں ایک نیشنل گارڈ بنانی چاہئے، یہ 45/46ء کی بات ہے ۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی پارٹی ہے ، اس میں گارڈز کا کیاکام، لیکن دوسرے لوگوں کی رائے الگ تھی ، انہیں مسلمانوں کی احیاء کے مختلف ادوار سے متعلق اسلامی جرنیل یاد آتے تھے۔ مختصر یہ کہ نیشنل گارڈ بن گئی ، وہ روزپریڈ کرتی تھی ۔ان دنوں راولپنڈی ضلع کے کسی کونے( شاید کہوٹہ) میں ایک مسلمان قتل ہو گیا ۔ اس کے ردعمل میں راولپنڈی کی نیشنل گارڈ نے ایک جلوس نکالا جس میں ننگی تلواروں کے ساتھ وہ شریک تھے۔ پھر ایک سلسلہ وار ردعمل شروع ہوا ۔ اس زمانے میں ہمارے داد کا گھر اس محلے میں ایسی جگہ پر واقع تھا جس کے آگے میدان تھا،وہاں چند قبریں تھیں (جو جعلی تھیں ، انگریزوں کے زمانے میں وہ وہاں ایک مشنری ادارہ چرچ بنانا چاہتے تھے، مسلمانوں نے رات راتوں وہاں قبریں بنا دی تھیں) وہ اب بھی ہیں۔ اس میدان کے ایک سرے پر ہم مقیم تھے، سامنے والی گلی میں ہندو رہتے تھے جو اتفاق سے سب کے سب کیمونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک سکھ نوجوان ہمارے گھر کی پچھلی گلی سے نکل کر اس میدان میں سے جا رہا تھا ، وہ ڈرا ہوا لگتا تھا ، جونہی وہ بیچ میں پہنچاتو پچھلی گلیوں سے تلواریں سونتے ہوئے لوگ نعرے لگاتے ہوئے نکلے ۔ وہ کہہ رہے تھے ہم نے اس کہوٹہ والے قتل کا بدلہ لینا ہے، یہ منظر میں نے خود اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھا ہے ، پھر اس سکھ شخص کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔
’’48ء میں میرے والد دلبرداشتہ ہو کر مسلم لیگ سے الگ ہو گئے تھے‘‘
قائد اعظم کی 11 اگست47ء کی تقریر بہت ذکر ہو چکی ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب پاکستان بن گیا ہے،اب ہمیں یہاں دوسرے لوگوں (اقلیتوں)کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ ان کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔میں 1932ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوا ، 1942ء تک ہمارا خاندان کانگریس میں تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہمارے والد مسلم لیگ میں چلے گئے اوراس کے لیڈر بنے۔ لیکن آپ غورکریں کہ 42ء میں پارٹی کی بنیادیں کھڑی کرنے اور47ء میں ملک بنانے کے بعد کیوں 1948ء میں میرے والد مسلم لیگ سے دلبراداشتہ ہو کر الگ ہوگئے تھے۔دراصل مسلم لیگ ان کے ذہن میں موجود تصور(جو قائداعظم کے تصور کے ہم آہنگ تھا) کے مطابق نہیں چل رہی تھی ۔
’’رویے میں اعتدال دادا کی خاموش تربیت کا نتیجہ ہے‘‘
میری پرورش میں ایک اور بڑا اثر ہمارے دادا کا پڑا ہے، وہ وکیل تھے اور 1904/5ء سے وکالت کر رہے تھے۔ ہمارے کنبے میں 46ء تک جوائنٹ فیملی سسٹم قائم رہا جب تک کہ انہوں نے وہ گھر بیچا نہیں۔ ہمارے دادا پُھندے والی ترکی (رومی)ٹوپی ، بند گلے کا کوٹ اوربڑی چمکدار برکابی زیب تن کرتے تھے ، پانچ وقت کے نمازی تھے لیکن انہوں نے اپنے خاندان میں کسی کو نظریات کے حوالے سے مجبور نہیں کیا ۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کیمونسٹ پارٹی کے رکن تھے اورآل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے لیڈر تھے، دوسرے محمود منٹو صاحب علامہ عنایت اللہ مشرقی کے خاکساروں میں شامل ہو گئے تھے۔ میرے والد پہلے کانگریس اور پھر مسلم لیگ میں آگئے تھے۔ یہ ہمارے گھر کا تنوع تھا۔ ہم نے اس وقت یہ سیکھا تھا۔
’’جب میں میلاد النبیؐ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ایک لفظ پر رُک گیا تھا‘‘
میرے نظریات 1949/50ء سے بننے شروع ہوئے۔ ساٹھ برس گزر جانے کے بعد وہ مجھ میں اتنے رچ بس چکے ہیں کہ اب انہی کے ساتھ جیتا ہوں، لیکن میری اپنی پرورش ذرا الگ ماحول میں ہوئی ۔1942ء میں مَیں اسلامیہ ہائی اسکول مری روڈ راولپنڈی میں داخل ہوا، اس سارے دورانیے میں ہم آریہ محلے میں رہتے تھے۔ پاکستان بننے تک ہمارا گھر اسی محلے میں تھا، اس محلے میں مکینوں کی غالب اکثریت ہندو تھی۔ ہماری گلی میں البتہ ہندؤں کا کوئی گھرنہیں تھا، گلی کی دوسری طرف دو مسیحی اورایک یہودی گھرانہ آبادتھا، اسی گلی میں ایک گھر احمدیوں کا بھی تھا،ہمارے گھر میں ہر سال عید میلاد کی تقریب ہوتی تھی ۔ (میں نے پوچھا کہ آپ تو اسکول میں نمازیں پڑھاتے رہے ہیں؟ مسکراتے ہوئے کہا : نماز تو اتنی نہیں پڑھائی جتنی کی اذانیں دیتا رہا) میلاد کی محفل میں ایک تقریر کرنی ہوتی تھی جوہمارے چچا کسی بچے کو تیار کر کے دیتے تھے، مجھے بھی وہاں ایک تقریر کرنے کا موقع ملا۔ اس گلی کا جو ماحول اور کلچرل میک اپ بن چکا تھا، اس کا مجھ پرعجیب اثرہوا۔میرے چچا کی طرف سے لکھی گئی تقریر میں ایک واقعہ بھی شامل تھا جس میں اس یہودی کا ذکر تھا جس نے مسجد نبوی میں کوڑا پھینک دیاتھا۔ اب اس واقعے کو بیان کرنے کے لیے تقریر کی عبارت کچھ اس طرح تھی کہ’’ ایک بدذات یہودی نے گندگی پھینکی‘‘ مجھے وہ تقریرازبرتھی ، جونہی میں اس فقرے پر پہنچاتو رُک گیا کیونکہ وہاں ہمارے دوست یہودی لڑکے اور لڑکیاں بیٹھے ہوئے تھے، بعد میں مجھے تقریر ٹھیک سے نہ کرنے پربڑی ڈانٹ پڑی۔ میں نے کہا کہ آپ نے بد ذات یہودی لکھا تھا ، وہاں تو فلاں بھی بیٹھا تھا، یہ میرے لیے بہت عجیب تھا کہ میں انہیں بدذات کیسے کہہ سکتا ہوں، جس کلچرل ماحول میں آپ پروان چڑھتے ہیں اس کاآپ کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
’’قائداعظم کی 11 اگست کی نقریر کی حمایت اور قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی‘‘
میرا کیمونسٹ نظریات کے ساتھ 46/47ء سے ہی رشتہ جڑ چکا تھا، اس زمانے میں ہمارے کیمونسٹ گروپ میں ایک اسٹڈی سرکل ہوا، اس میں یہ بھی تھا کہ پاکستان بنانے کی قرارداد کیا ہے،وہ بحث میں نے کافی دلچسپی سے سنی۔ وہاں 1940ء والی قرارداد بار بار پڑھی گئی ، شرکاء نے کہا اس میں ذکر ہے کہ مسلم اکثریتی ریاستوں کو وفاقی ڈھانچے کے اندر بااختیار بنایا جائے گا ، اس میں تو یہ بھی نہیں کہا گیا کہ پاکستان کے نام سے کوئی ملک بننے جا رہا ہے،اور یہ بھی کہیںنہیں کہا گیا کہ اس میں نظام کیا ہو گا۔ اس وقت پہلی بار وہاں پر قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر بھی پڑھی گئی، یہ ساری چیزیں مجھے ری انفورس کرتی تھیں کہ کوئی ایسا نظام جو جمہوری بنیادوں کی بجائے کسی عقیدے کی بنیاد پر ہے ، وہ ان قراردادوں کا حصہ نہیں تھا۔ جب قرارداد مقاصد پاس کی گئی تو ہم نے کافی سیمینارز کیے جن میں ہم نے اس سوال پر بحث کی کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر ہونی چاہیے یا پھر قراداد مقاصد؟ یہ اس وقت کا ردعمل تھا ۔ ہماری پارٹی نے اس وقت قراراد پاس کی کہ قرارداد مقاصد کی بجائے قائداعظم کی تقریر کو آئین کی بنیاد بنایا جائے۔
’’مولانا بھاشانی کا خیال تھا کہ یہاں سیاست سیکولر بنیادوں ہی پر ہو سکتی ہے‘‘
مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والے لیڈر مولانا بھاشانی کا ذکر آیا تو کہا:میں مولانا بھاشانی کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن رہا ، ان سے بہت زیادہ تعلق تو نہیں تھا کیونکہ وہ ڈھاکہ میں رہتے تھے۔ کسی حد تک ان سے تعلق اس وقت بنا جب ہم نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کرائی، اس وقت وہ یہاں آئے تھے ۔ اس کے بعد ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پاکستان کو خدا حافظ کہنے آخری بار آئے تھے۔ ان دونوں موقعوں پر میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ وہ بنیادی طور پر عوامی لیڈر تھے ۔آسام سے ان کی سیاست کا آغاز بھی کسانوں کی تحریک سے ہوا۔ شروع میں وہ کسانوں کی تحریک کو اسلامی طریقے سے چلانے کی کوشش کرتے رہے البتہ تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست تو سیکولر ہی ہو سکتی ہے کیونکہ آسام اور بنگال صوبے میں ہندؤں کی بھی بڑی تعداد تھی۔مولانا بھاشانی کے جلسوں پر ڈھاکہ اور لاہور میں حملے بھی ہوتے رہے ۔ ڈھاکہ میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے حملہ کیا ، جب وہ پارٹی بنانے کے بعد پلٹن میدان میں عوامی اجتماع کے ساتھ موجود تھے۔اس وقت مولانا نے سڑک پر کچھ اس طرح سے جلسہ کیا کہ بار بار وہ لوگ نماز کی نیت باندھ لیتے تھے اور پھر جلسہ شروع ہوجاتا تھا ۔ یہ پولیس کو آگے پیچھے کرنے کاحربہ تھا۔ مولانا جب یہاں آئے تواس وقت ابھی نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) نہیں بنی تھی ۔ اس دورے میں مولانا بھاشانی کے ساتھ غفار خان، ولی خان ، بزنجو، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل اور راؤ سکندر خان خلیل تھے ۔لاہور کا یہ جلسہ بھی اکھیڑا گیا ۔بلوائیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ والے تو تھے ہی ، لیکن اس میں حکومت بھی شامل تھی۔میں اس سارے منظر کا عینی شاہد ہوں ۔
’’اسلامی جمعیت طلبہ والے پتھروں سے لدی گاڑیاں لے کر کانفرنس ہال پر حملہ آور ہو ئے‘‘
یہ پچاس کی دہائی کے کسی سال کا واقعہ ہے ، اتنا یاد ہے کہ تاریخ پچیس دسمبر تھی ۔کراچی میں ہم نے طالب علموں کی ایک کانفرنس رکھی۔ کمیونسٹ پارٹی 1954ء میں کالعدم ہو چکی تھی ۔ ہم نے یہ فیصلہ کہ اب ایک بڑی اسٹوڈنٹ پارٹی بنانی چاہئے۔ کاٹرک ہال کراچی میں ہم نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا ۔اس ہال کی اوپر والی گیلری میں بیٹھی خواتین سمیت کم وبیش پانچ چھ سو لوگ وہاں موجود تھے ۔ ہم نے اس جلسے میں اس وقت کے وزیر قانون اے کے بروہی کو بلایا ہوا تھا۔ بروہی صاحب مقررہ وقت پرنہیں پہنچے ۔ پتہ چلا کہ وہ حیدر آباد کسی کام سے گئے ہوئے ہیں اور اب وہ چل پڑے ہیں ،ابھی راستے میں ہیں۔ ہمیں بعد میں بتایا گیا انہیں ایڈوائس کی گئی تھی کہ کیمونسٹوں کے جلسے میں آپ نہ ہی جائیں تو بہتر ہے ۔ انہوں نے انکار تو نہیں کیا مگر کافی ڈیلے ضرور کیا۔ اس انتظار کے دوران ہال میں شور مچ گیا ۔ کاٹرک ہال کو شیشے لگے ہوئے تھے اور سب دیواریں لکڑی کی تھیں ۔ شور مچا تو مرکزی دروازہ کسی نے کھول دیا اور وہاں سے اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ اندر آگئے۔ ناصر ف وہ بلکہ دو وینیں بھی اندرآئیں، ان گاڑیوں میں پتھر لدے ہوئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی یلغار شروع کر دی۔ پھر کچھ اور افراد بھی ان کے ساتھ تعاون کرنے آ گئے جو بظاہر سرکاری لوگ تھے ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ بروہی کے آنے قبل ہی ان کو تتر بتر کر دیا جائے۔ ہمارے رضاکار بھی حصار کے اندر جوابی کارروائی کرتے رہے ۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ اے کے بروہی پہنچ گئے۔وہ پروٹوکول کے ساتھ آئے تھے ، اس لیے پولیس کووہ سب بلوائی نکالنے پڑے۔ اس موقع پر بروہی نے بہت اچھی تقریر کی۔ یہ میرا جمعیت کے ساتھ پہلا ایکس پیرئینس تھا۔تناسب دیکھا جائے تو ہمارے یہاں سیاست میں تشدد کے حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کا نام کافی نمایاں رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں23برس پڑھایا ہے۔ اس دوران بھی اسلامی جمعیت طلبہ کافی متحرک تھی۔ میں نے کبھی ان سے نہیں چھیڑا۔ انہوں نے میرے ڈسپلن کی وجہ سے مجھے کبھی ڈسٹرب نہیں کیا۔
’’کمیونسٹ پارٹی کے بزرگ رکن کاکا خوشحال خٹک نے جگایا اور وضو کے لیے پانی لانے کو کہا‘‘
جب انڈیا میں پہلی کمیونسٹ پارٹی بنی تو حسرت موہانی اس کے بانی رکن تھے۔ یہ لوگ مذہب سے بیزار نہیں تھے ۔ پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتے تھے ۔ مجھے عملی طور پر اس طرح کاایک تجربہ ہوا۔یہاں لاہور میں 114 میکلوڈ روڈ پر کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا ۔ ہم راولپنڈی سے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کانگریس کرنے لاہور آئے۔ تب میں لاہور میں پہلی بار آیا تھا ۔ ہم پانچ سات لوگوں کو کمیونسٹ پارٹی کے دفتر ہی میں رہنے کی جگہ دی گئی۔ گرمیوں کے دن تھے اورہم چھت پر چٹائیاں بچھا کر لیٹے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بزرگ بھی ہمارے ساتھ موجود تھے ، پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن ہیں ، کاکا خوشحال خان خٹک ان کا نام تھا ۔ ہوا یوں کہ صبح چار بجے کے قریب مجھے کسی نے جھجھوڑا۔ دیکھا تو وہ کاکا صاحب تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پانی چاہیے ۔ تیسری منزل پر پانی نہیں تھا ، میں نیچے گیا اور پانی کی بالٹی لے کر آیا ۔ انہوں نے لوٹے میں پانی ڈال کر وضو کیااورنماز پڑی ۔ میں پھر سے سو گیا ۔ جب صبح اٹھ کر ہم دوست نیچے اتر کرآئے تو میں نے اس وقت پارٹی کے جنرل سیکریٹری فیروز الدین منصور سے پوچھا کہ دادا! یہ کاکاجی تو نماز پڑھتے ہیں ، انہوں نے صبح صبح مجھے جگا دیا ۔ انہوں نے کہا : پھر کیا ہوا، وہ کمیونسٹ ہیں یا نہیں ہیں مجھے یہ بتاؤ ۔ انہوں نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہے ۔ تمہیں اس سے کیا کہ وہ تونماز پڑھتے ہیں یا نہیں۔ یہ جو لڑائیاں پیدا ہوئیں یہ اس وقت کے بعد کی کہانی ہے جب اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی مخصوص انداز میں متحرک ہوئی۔
’’بھٹو سے دو ملاقاتیں ہوئیں، پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ہمارے جلسے اکھیڑے‘‘
ناقدین کا خیال ہے کہ بھٹو صاحب زیادہ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اپنی ذات میں ایک طرح کے آمر تھے ،آپ کیا کہتے ہیں؟ میرا خیال ہے یہ بات درست ہے۔ میرا ان کے ساتھ زیادہ ذاتی تعلق تو نہیں رہا لیکن ان کے ساتھ خاص موقعوں پر رابطہ رہا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایوب خان نے یہاں گول میز کانفرنس بلائی، اس کے خلاف بہت ایجی ٹیشن شروع ہو چکی تھی ۔ کانفرنس میں بھٹو صاحب مدعو نہیں تھے ،باقی سب سیاسی پارٹیاں بلائی گئی تھیں ۔ مسٹر بھٹو لاہور فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ہماری پارٹی کے مولانا بھاشانی بھی لاہور ہی میں میاں افتخارالدین کے گھر قیام پذیر تھے۔ وہاں پر ہماری میٹنگ چل رہی تھی کہ اس کانفرنس میں شرکت کی جائے یا نہیں۔ مولانا کو دعوت تھی لیکن ہم نے نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھٹو کو اپروچ کریں گے کہ ہماری دونوں پارٹیوں کے خیالات کسی قدرملتے جلتے ہیں(سوشلزم وغیرہ کے حوالے سے) ۔ ہم اپنا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں گے ۔ میں اور میجر اسحاق(جو اس وقت ہمارے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی میں تھے بعد میں انہوں نے کسان پارٹی بنائی )مسٹر بھٹو سے ملنے گئے۔ ہماری ان سے ایک گھنٹہ ملاقات رہی اور ایک دو سطری معائدہ ہوا جس میں ہم نے باہمی تعاون پر اتفاق کیا لیکن اس رد عمل کے ایکشن میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا ۔ آخری دفعہ اس وقت واسطہ پڑا جب مسٹر بھٹو دورِ حکومت میں دو مرتبہ ہماری خانیوال کسان کانفرنس کی طنابیں کاٹ دی گئیں ، پنڈال گرا دیے گئے، یہ وہاں کی پیپلز پارٹی کے لوگوں کی حرکت تھی اور ہمارے ساتھ یہی سلوک وہاڑی میں بھی پیپلزپارٹی کے لوگوں نے کیا تھا ۔ ان کچھ اس قسم کا طرز عمل تھا ۔
’’ خودارادیت کی بجائے کوئی اور نعرہ لگایا تو دنیا کشمیریوں کا ساتھ نہیں دے گی‘‘
عابد حسن منٹو کشمیری ہیں، اسی مناسبت سے کشمیریوں کی تحریک آزادی سے جڑے کچھ سوالات بھی کیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں لڑنے کے لیے اس طرح کی مذہبی جہادی تنظیمیں بنانا سخت افسوس ناک اقدام ہے۔ ہمارا موقف اس وقت (نوے کی دہائی میں جب جہادی تنظیمیں بنائی گئیں)یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تویہ کہ آپ (پاکستان)کے پاس جو آزادکشمیر ہے یہاں آپ نے کوئی تحریک اٹھانی نہیں، آپ اسے بیس کیمپ کہتے ہیں ، یہاں تو لوگ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں ، تحریک تو مقبوضہ کشمیر والے چلائیں گے،تو وہ اگر حق خود ارادیت کی بجائے جہاد یا پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی بنیاد پر چلاتے ہیں ، تو پھر ان کی دنیا میں لوگ حمایت نہیں کریں گے ، دنیا میں لوگ صرف حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ کسی کے دعوے کی وہ حمایت نہیں کرتے ۔ یہاں لوگ شہہ رگ کے دعوے کرتے ہیں، ستر سال ہم شہہ رگ کے بغیر کیسے گزارا کرتے رہے؟ میں مقبوضہ کشمیر میں ہاشم(معروف کشمیری حریت پسند) کے بیٹے کی شادی میں گیا تو دیکھا کہ وہاں جنگجو دو قسم کے تھے ۔ ایک وہ تھے جو حق خود ارادیت کے لیے برسرپیکار تھے اور دوسرے جہادی تھے۔ میری جن لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ سب اس بات پرمتفق تھے کہ اس جہادی ایلیمنٹ کی وجہ سے ان کی جد وجہد کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ جب جہادی وہاں ایک آدمی کو مارتے ہیں تو ان کی ساری سیاسی سرگرمی رک جاتی ہے ۔ ہم ابھی تک اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچے کہ آیا ہم کشمیر کو ایک وحدت مانتے ہیں اور اس کے باشندوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرتے ہیں یا نہیں ۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا اور بعید نہیں کہ وہ آزاد ہونے کے بعد ہمارے ہی کے حق میں ووٹ دے دیں۔
’’گنگا ہائی جیکنگ کشمیری حریت پسندوں کی جینوین ایفٹرٹ تھی ، وہ کسی کے ایجنٹ نہیں تھے‘‘
یہ بات غلط ہے کہ کشمیری نوجوان ہائی جیکرز ہاشم قریشی اور اشرف قریشی یا ان کے لیڈرز انڈین ایجنٹ تھے، ہاشم اس واقعے سے پہلے بھی پاکستان میں آ چکا تھا۔اس کے رشتہ دار پشاور میں رہتے تھے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جو بھی کشمیر سے یہاں آتا ہے تو انٹیلی جنس اس کو دیکھتی ہے ، ہاشم اور اشرف تو اس وقت17/18 سال کے لڑکے تھے۔ ان کی پارٹی این ایل ایف میں بہت معتبراور سنجیدہ لوگ موجود تھے۔ مقبول بٹ کے ساتھ تو میرا بہت زیادہ میل جول رہا، وہ ایک بہت مضبوط ارادوں کا اور پڑھا لکھا آدمی تھا۔وہ کوئی جذباتی لیڈر نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فاروق بھی ایک پڑھا لکھا آدمی تھا اور وہ میری ایک کزن کا شوہر بھی تھا ، وہ سب لوگ ایسے نہیں تھے کہ کسی کے ایجنٹ بن جائیں گے ۔ یہ (طیارہ اغواء) ان لوگوں کی جینوئن ایفرٹ تھی ۔ان سے پہلے بھی اس جد وجہد میں میر عبدالقیوم، میر عبدالمنان وغیرہ جیسے اہم افراد تھے، ، یہ کوئی غیر سنجیدہ قسم کی ایجنٹوں کی پارٹی ہرگز نہیں تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مقبول بٹ کو یہاں بھی ایجنٹ کہا گیا ۔اس (گنگا)مقدمے میں میرے بنیادی مؤکل ہاشم قریشی کو سزا ہو گئی تھی ، باقی سارے لوگوں کوزیادہ سزا نہیں ہوئی۔ ہاشم کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چودہ برس قید کی سزا سنا دی گئی ، چار پانچ سال بعد ہم نے اس کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں کی ، اس اپیل کی سماعت کے وقت ہاشم نے کہا کہ اگر میں باہر نکل بھی گیاتو کہاں جاؤں؟ ہندوستان والے کہتے ہیں کہ میں پاکستانی ایجنٹ ہوں، پاکستان والوں نے تو فیصلے میں لکھ دیا ہے کہ میں انڈین ایجنٹ ہوں،وہ اپیل یہاں سپریم کورٹ میں لگی ۔ اس سے قبل ان کے خلاف سپشل ٹربیونل نے فیصلہ دیا تھا، یہ چار سو صفحات پر مشتمل فیصلہ تھا ۔ گویاپوری کتاب تھی ، میں جب وہ کھول کر پڑھنے لگاتوتینوں ججوں نے بیک زبان کہا کہ یہ تو بہت لمبی کتاب ہے ، جو آپ نے پڑھا ہے ہم اس کی بنیاد پر حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آپ کی اس اپیل کی مخالفت کرتے ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب حکومت نے یہ اپیل کر رکھی تھی کہ جو رہا ہوئے ہیں انہیں زیادہ سزا اور ہاشم کو پھانسی کی سزا دی جائے ، پھر کیس ایڈجرن ہوا،اس وقت حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا ہم حکومت کی جانب سے کی گئی اپیل واپس لے لیتے ہیں ، یہ(ہاشم ) اپنی اپیل واپس لے لیں ، انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ ہم اپیل تو واپس نہیں لے سکتے کیونکہ ہم تو یہ اپیل کر رہے ہیں کہ ہماری کنوکشن جس بنیاد پر ہوئی ہے وہ غلط ہے اور یہ الزام ہمارے اوپر سے ہٹایا جائے ۔ پھر یہ فیصلہ ہوا کہ میں فیصلے کے متعلق ایک فیکچویل ڈرافٹ بنا کر کورٹ میں پیش کروں ، وہ میں نے بنا کر پیش کر دیا، اسی کی بنیاد پر انہوں نے فیصلہ کر دیااور اس میں فیورایبل بات لکھ دی ۔
’’سی پیک بننے سے مستقبل کانقشہ بدل رہا ہے ، پاکستان کو اپنا ذہنی نقشہ بھی بدلنا ہو گا‘‘
انہوں نے عملی طور تو ان سارے علاقوں کو اپنا باج گزار بنایا ہوا ہے ۔ آزادکشمیر جہاں ان کااپنا آئین اور اسمبلی بھی ہے وہاں حقیقت میں حکومت تو پاکستان اور اس کے چار افسروں کی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اقدامات اور اور سیاسی موقف میں تضادات ہیں ۔سی پیک کے بننے سے جن جن کے مفادت وابستہ ہیں وہ سب چاہتے ہیں کہ یہ بن جائے۔ اب نقشہ تو بدل رہا ہے لیکن اس دوران پاکستان کو اپنا دماغی نقشہ بھی بدلنا پڑے گا کہ انہوں نے گلگت بلتستان کا معاملہ کیسے حل کرنا ہے ۔ جب آپ کا فیصلہ ہے کہ یہ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ بات چیت کرکے کوئی معائدہ کرنا چاہئے۔ مقامی باشندوں کو اس میں شامل کیا جائے ورنہ یہ جھگڑے ختم نہیں ہوں گے ۔
’’کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں کو لچک دکھانی ہو گی‘‘
ہندوستان کے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔دوسرا حصہ پاکستان کے پاس ہے ۔ یہ جو قبضے کے معاملات نہ تو یاسین ملک کے کہنے سے درست ہو سکتے ہیں نہ کسی اور کے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کا کشمیر ہندوستان کے حوالے ہو جائے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر پورے طور پر نکل کر پاکستان کے ساتھ آجائے، ہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کا بھارت سے تعلق ری ڈیٹرمن ہو جائے۔ کشمیر کو جوڑ کر ایک خودمختار ریاست بنانا تبھی ممکن ہو گا کہ پاکستان اس بات پر راضی ہو۔ یہ پاکستان کی رولنگ کلاس کا سوال ہے ۔ اگر یہ خود تیار نہیں تو ہندوستان کو کیسے کہا جا سکتا ہے بلکہ خود کشمیریوں کو کیسے کہا جا سکتا ہے۔ دیکھیں مقبوضہ کشمیر کے اندر موجود کشمیریوں کو اپنی جد وجہد کے لیے کوئی سیاسی موقف لینا پڑتا ہے ۔اگر وہ یہ کہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو وہاں کون سیاست کرنے دے گا؟
’’عدلیہ کا انحطاط مارشل لاء دور سے شروع ہوا، حاکم قوت کی ساتھ مفاہمت مسئلے کی بنیاد ہے‘‘
عدلیہ کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ پاکستانی عدلیہ میں انحطاط مارشل لاؤں کے زمانے سے شروع ہوا۔ جب عدلیہ نے مارشل لاء کو جسٹی فائی کرنے کے لیے فیصلے کرنے شروع کیے توغیر جمہوری وغیر آئینی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑی۔ اس کے لیے آپ کئی بہانے تراش سکتے ہیں مثلاً حالات خراب تھے، یا پھر سول انتظامیہ فیل ہو چکی تھی، ہمارا تو کیس یہ ہے کہ آپ سول اداروں کو مضبوط کرنے کے عمل کا حصہ بنیں۔ آپ فیصلہ وہ دیں جو سول ایڈمنسٹریشن کومستحکم کرے نہ وہ جو دوسری قوتوں کو طاقتور بنائے ۔ جب آپ ایک حاکم قوت کے ساتھ مفاہمت کرنا شروع کرتے ہیں تو پھرآپ کسی کے ساتھ بھی مفاہمت کر سکتے ہیں۔ حاکم قوتیں سیاسی ہوں یا غیر سیاسی کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت کس ادارے سے کیا چاہتی ہیں ۔ جب آٹھ ججوں میں سے ایک کو اٹھا کر چیف بنایا جاتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی’’حکمت‘‘ ہوتی ہے۔
’’عدلیہ کی بہتری میں بنیادی ذمہ داریبار ایسوسی ایشنوں کی ہے‘‘
عدلیہ کے کرادر میں شفافیت ممکن بنانے میں بڑا کردار بار ایسوسی ایشنوں کا ہے ۔اس وقت پاکستان میں دو لاکھ کے قریب وکیل ہیں ،بار ایسوسی ایشنز بہت منظم ہیں ، ان کے انتخابات بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں بھی بہت دفعہ ان کا اچھا کردار آپ نے دیکھا ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمانے میں ہم نے جو تحریک چلائی تھی وہ اس کی مثال ہے ۔ لیکن جونہی ہم بحرانوں سے نکلتے ہیں تو یہاں بھی وہی فائدہ اٹھانے ، قبضہ کرنے ، اپنے لوگوں کو آگے لانے کی کشمکش نظر آنے لگتی ہے ، اب تو ڈی جنریشن اتنی ہونے لگی ہے کہ ہم سنتے ہیں کہ وکیلوں نے مجسٹریٹ کو کمرے میں بند کر کے مارا۔پولیس اہلکاروں کو مار پیٹ ہوئی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ افسوسناک بات ہے ۔ اگر بار ایسوسی ایشنز سختی سے اس بات پر کاربند ہوجائیں کہ وہ قانون کی بالادستی اور آئین کی پاس داری کے ساتھ رہیں گے تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سماج میں ہی سب کچھ بکھرا ہوا ہے توا س کو ٹھیک کرنا آسان نہیں ہے مگر کم ازکم اپنے ادارے کی حد تک کچھ نہ کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔
’’ میں کامیاب وکیل ہوں لیکن اس میں پیسےکا کوئی کردار نہیں‘‘
(مسکراتے ہوئے) دیکھیں آپ کی اطلاع کے لیے میں ایک کامیاب وکیل تھا۔ تیس چالیس سال تو میں کامیاب ہی رہاہوں، لیکن میں نے پیسے نہیں کمائے ۔ میری پارٹی کے اندر بھی بعض لوگوں کو شبہ ہو جاتا ہے کہ میں تو کروڑ پتی ہوں ، میں نے ان سے کہا میں نے وکالت شروع کرتے ہی یہ فیصلہ کیا کہ میں نے کارخانے دار کا مقدمہ مزدور کے خلاف نہیں لڑنا اور مزدوروں کے مقدمے مفت کرنے ہیں، کوئی مزدور یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس سے پیسے لیے ہیں ، تو آپ مجھے بتا دیں کہ میں کروڑ پتی کیسے ہو سکتا ہوں، اس کے باجود میں کامیاب وکیل ہوں ، اس میں پیسے کمانے کا کوئی کردار نہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے وکالت کرنے کے طریقے اور دیانت کو جج تسلیم کرتے ہیں۔
’’میٹنگ میں شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ انہوں نے فلاں فلاں جج پہلے ہی رام کر لیے ہیں‘‘
میں جب نیا نیا سپریم کورٹ کا وکیل بنا تو ایک مقدمے میں شریف الدین پیرزادہ کے ساتھ جونئیر وکیل کے طور پر تھا۔ انہوں نے مجھے اسلام آباد بلا لیا۔ وہاں ہماری میٹنگ تھی ، دو تین اور وکیل بھی موجودتھے۔ بات چیت مقدمے کے بارے میں ہوئی مگر اس کے حقائق اورقوانین کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی ۔ پیرزادہ صاحب نے یہی بتایا کہ ان پانچ ججوں جن نے کل ہمارا فیصلہ کرنا ہے ، ان میں سے کن کن کو انہوں نے رام کر لیا ہے۔ میں اس میٹنگ میں اکیلا تو نہیں تھا ، سب سن رہے تھے۔
’’ڈکٹیٹر مشرف کی نہیں فیڈریشن کی وکالت کی تھی‘‘
مشرف دور میں ایک مقدمے کی پیروی پر سوال اٹھایا توردعمل کچھ یوں تھا: نہیں میں آرمی کا کبھی وکیل نہیں رہا۔ صرف ایک سرکاری مقدمہ کیا۔ وہ قومی احتساب بیورو کے قانون کے حوالے سے تھا، نیب آرڈیننس جب 99ء میں نافذ ہوا تو اس کو مختلف لوگوں نے چیلنج کیا ۔ چیلنج کرنے والے یہاں کے سیاسی لیڈر نواز شریف ، اسفند یار ولی وغیرہ بھی تھے، ان کا موقف تھا کہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور ہمارے خلاف سیاسی بنیادوں پر جاری کیا گیا ہے، فیڈریشن نے مجھ سے کہا کہ آپ ہماری طرف سے پیش ہو سکتے ہیں ، میں نیب کی طرف سے پیش نہیں ہوا ، میں نے فیڈریشن سے کہا کہ اس آرڈیننس میں جو خرابیاں قانون اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ان کا دفاع میں نہیں کروں گا، اگر آپ اجازت دیں تو پہلے ہی ان کو لکھ کر دیتے ہیں کہ یہ چیزیں ہم ٹھیک کر کے دینے کے لیے تیار ہیں۔ نیب کے آرڈیننس میں خاص طور پر یہ بھی لکھا تھا کہ جو حاضر سروس فوجی سول انتظامیہ میں آ کر کام کرتے ہیں ان کا احتساب بھی کیا جا سکے گا ، میں نے سوچا کہ اتنا بڑا قانون آج تک بنا نہیں ہے اس لیے میں اس کا دفاع کروں گا، یہ سارا کام کرنے سے پہلے میں نے اپنی پارٹی سے رابطہ کیا کہ کیا میں یہ مقدمہ کروں یا نہ کروں، ہماری پارٹی نے نیب بننے سے پہلے ایک قرارداد پاس کی تھی کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور اس کے لیے قانون بننا چاہیے، سو میری پارٹی نے مجھے اجازت دے دی ۔ پھر جو فیصلہ ہوا اس کے پہلے صفحے پر میرا یہ بیان درج ہے کہ ہم اس میں موجود خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’’فوجی عدالتیں پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم سے بنی ہیں،پوچھناچاہئے کہ سول انتظامیہ کیوں فیل ہے‘‘
پہلا سوال یہ ہے کہ یہ عدالتیں کس نے بنائی ہیں ۔ ظاہر ہے آئینی ترمیم ہوئی ہے جو پارلیمنٹ نے کی ہے ۔ اب پارلیمنٹ اس بات کا جواب دے کہ جس سسٹم کو چلانا سول انتظامیہ کا کام ہے ، وہ کیوں فیل ہے ۔ آپ نے پچھلی مرتبہ فوجی عدالتیں بنانے سے لے کر اس وقت تک نارمل جوڈیشل جیورس ڈکشن کو مضبوط کرنے یا بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی سول عدالت ثبوتوں کے بغیر کسی کو سزا نہیں دے گی، یہ قانون ازل سے ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو جائے گا، اور شک سے مراد ادنیٰ ترین شک ہے۔ ان ساری باتوں کی اس وقت نفی ہو جاتی ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ایک ایسی عدالت ہونی چاہیے جو جنرل پرسپشن کے مطابق لوگوں کو سزا دے دے، اب سزا اور جزا کا معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کو اب خوشی نہیں ہو رہی کہ آپ سزائیں نہیں دے رہے ہیں، لوگوں کی پرسپشن یہ ہے کہ سزا ہونی چاہئے اور آپ نہیں دے رہے، یہاں تین چوتھائی مقدمات کا تعلق سیاسی اثرات سے ہے لیکن آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگوں کوسزا دی جائے ۔ چونکہ آپ نے سب لوگوں کو یہ سکھایا ہوا ہے کہ لوگوں کوسزا ہونی چاہیے۔اس قسم کی سزا تو فوجی عدالت ہی دے سکتی ہے۔ فوجی عدالت اس لیے تو نہیں بنائی گئی کہ انصاف دیا جائے، یہ عدالت اس لیے بنائی گئی ہے کہ لوگوں کو سزائیں دی جائیں۔ اس کا اعلان ہی یہی ہے کہ (سول عدالتوں سے )سزائیں نہیں ہوتیں۔
’’ضیاء الحق کا دور دو وجوہات کی بناء پر سب سے برا تھا‘‘
ضیاء الحق کا دور پاکستان کی تاریخ کا سب سے برا دور ہے، ایک تو ضیاء الحق فوجی آمر تھے ، دوسرا اس لحاظ سے کہ وہ ڈکٹیٹر ہونے کے ساتھ اپنے کسی نظریاتی مشن پر بھی تھے، اس ملک کے بارے میں وہ اپنے اس مشن کے ساتھ مخلص تھے؟ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ دیانت دار آدمی تھے ، کیونکہ جو آدمی کسی کے کہنے پر مشرق وسطیٰ میں جاکر مسلمانوں کو قتل کر سکتا ہے ، اس کے اسلام کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیااوربدقسمتی سے اس کی باقیات اب تک موجود ہیں۔
’’نواز شریف نے حالات سے سیکھا ہے ،ان کے بنیادی نظریات میں تبدیلی محسوس ہوتی ہے‘‘
نواز شریف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان نے جو وقت بیرون ملک گزارا ہے اس سے ان نے کافی سیکھا ہے ۔ ان کے بولنے کے انداز اور نظریات میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس (سرمایہ دارانہ )نظام سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس نظام کو ایک آپریٹو نظام کے طور پر چلانے کے لیے اس کے تقاضے پورا کرنا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے نواز شریف اب 1947ء والے قائداعظم کی طرح کا بننا چاہتے ہیں۔
’’گھر بیگم کے اصرار پر قرض کی رقم سے بنایا‘‘
مزدورں کے اس لیڈر کا عالیشان گھر دیکھ کرحیرت ہوئی تو انہوں نے اس گھر کی کہانی سنائی ۔یہ گھر1972میں بنا ۔ پہلے ہم شہر میں 4مزنگ روڈ پررہتے تھے۔ وہیں پر ہمارا دفتر بھی تھا ۔ ہم جن کے کرایہ دار تھے انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عبدالعزیز خاں سے استدعا کی کہ ہمیں ان سے گھر خالی کرا دیں ،چیف جسٹس صاحب نے مجھے بلا کراس بارے میں آگاہ کیا ۔ اس گھر کے مالک بیرون ملک سے واپس آ گئے تھے۔ میں نے چند دن نیا گھر ڈھونڈنے کی مہلت مانگی ۔ پھرکافی مشکل سے اسی سڑک پر 7 اے بلاک ماڈل ٹاؤن میں پورشن کرائے پر ملا۔ یہ 79ء کا ذکر ہے ۔ تب میری بیگم نے زور دیا کہ اب کب تک اس طرح کرائے پر رہیں گے، اپناگھر بنانا چاہیے ۔ میں متفق نہیں تھا اول تومیرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے دوسرا میں ویسے ہی گھر بنانے کے حق میں نہیں تھا ، ایک دن بیگم آگے چوک سے سودا وغیرہ لے کر آئیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس پلاٹ کے بارے میں بات کی ہے۔اس وقت یہ پلاٹ خالی تھا ،ساتھ والے گھر بھی نہیں تھے ، یہاں درخت تھے اورچھچھوندریں چوہے پھرتے رہتے تھے ۔ بیگم نے کہا کہ ہمیں یہاں پلاٹ مل سکتا ہے ، یہ کوئی چھ کنال کا پلاٹ تھا ، میں نے کہا ہم زیادہ سے زیادہ دو کنال لے سکتے ہیں ، قیمت پوچھی تو بیگم نے بتایا کہ بیس ہزار میں دوکنال مل جائیں گے، یہ سب میری بیگم کی کاوش تھی، جب میں نے ان سے بات کی تو وہ ساڑھے 17 ہزار پر دو کنال پانچ مرلے دینے پر راضی ہوگئے۔ اس وقت ہمارے پاس پیسے نہیں تھے ، میں نے بینک سے 25 ہزار روپے قرض لیا، واپسی کی پہلی قسط پانچ ہزار روپے تھی جو میں نے اسی وقت دے دی اور پھرہمارے کچھ دوستوں نے ہمیں قرض دیا، لگ بھگ 75 ہزار میں یہ گھر تعمیر ہوا،اس کا نقشہ ہمارے دوست ریاض الرحمان اور میری بیگم نے مل کر بنایا۔ پھر ہم نے 73ء تک قرضے چکا دیے ، اسی دوران مسٹر بھٹو نے حیدر آباد سازش کیس لگا دیا ، چونکہ میں اس میں ملزموں کا وکیل تھا لیکن پیسے سرکار نے دیے تھے۔سرکار سے ملنے والے پیسے تو کچھ خاص نہیں ہوتے لیکن وہ پہلی یکمشت رقم تھی جو ہمیں ملی اور ہمارے مالی معاملات کلیئر ہوئے۔
’قائداعظم پسند یدہ شخصیت ہیں۔ستار اور ہارمونیم بجاتا رہا،کلاسیقی موسیقی سنتاہوں، ٹینس اور کرکٹ کھیلتا رہا، احمد شہزاد اپنے اسٹائل کی وجہ سے پسند ہے،استنبول اور لاہور پسندیدہ جگہیں ہیں‘‘
پسندیدہ شخصیت کے بارے میں استفسار پر کہا پاکستان میں جناح صاحب اور سامنے دیوار پر قائداعظم کی تصاویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دونوں تصویریں سوٹ والی ہیں ،دوسری تصویر میں ڈوبر مین اور ایک روسی کتا بھی موجود ہے، دونوں ان کے پاس ہیں اور ان کے منہ سگار ہے، میں ان قائداعظم کو تومانتا ہوں، بعد میں جو ان کو ٹوپی اور اچکن پہنائی گئی،مجھے وہ قبول نہیں۔دنیا میں پسندیدہ شخصیات میں سے آخری فیدل کاسترو تھے، جنہوں نے ایک چھوٹے سے ملک کو بے شمار مشکلات، معاشی ناکہ بندیوں اور دباؤ کے باوجودقائم رکھا اور اپنے نظریات پر سمجھوتا نہیں کیا۔ویسے بھی کتابیں بہت پڑھتاہوں۔ ایک چھوٹی سی کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اس کا نام کمیونسٹ مینی فسٹو ہے۔ موسیقی سے کسی زمانے میں بہت شغف رہا۔ ستار اور ہارمونیم بجاتا تھا، پاکستان بننے سے پہلے راولپنڈی میں ماسٹر پریم سے ہارمونیم اور ستار سیکھتا رہا۔ یہاں آکر استاد شریف پونچھ والے کے ایک ساتھی سے سیکھا ۔ پھر میری بیٹی کوشوق ہو گیا، ستار ان کو دے دی ۔ مجھے کلاسیکی موسیقی بہت پسند ہے۔نجم سیٹھی کا بیٹا علی سیٹھی کلاسیکل اچھا گاتا ہے ، ویسے تو استاد فیاض خان، استاد عبدالکریم خان اور روشن آراء بیگم میرے پسندید ہ گانے والے تھے۔ کالج کے زمانے میں فلمیں بہت دیکھتا تھا، مسعود پرویز رشتے میں میرے والد کے چچا زاد بھائی تھے ، وہ فلموں میں کام کرتے تھے ،ہیرو بھی رہے ،ان کی فلم’’ منگتی‘‘ بڑی مشہور ہوئی ۔ اس وقت مجھے اس کام کا شوق ہوا لیکن سیاست میں چلے جانے کی وجہ سے جلد ہی ہٹ گیا، ا سعادت حسن منٹو کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ پر بنی فلم بہت پسند آئی تھی، اداکاروں میں لوگ عام طور پر دلیپ کمار کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن مجھے ایک اور ہندوستانی اداکار بپاشو کمار پسند ہے، وہ ایک بہت کامیاب ایکٹر تھا اور اداکاراؤں میں نرگس پسند ہے۔ میں پنجاب یونیورسٹی کی ٹینس ٹیم میں تھا اور لاء کالج کی کرکٹ ٹیم کا بھی کپتان تھا،کرکٹ اب بھی بہت دیکھتا ہوں ، کرکٹ کی وجہ سے تومیری راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہی ، احمد شہزاد اپنے اسٹائل اور اسٹروک پلے کی وجہ سے بہت پسند ہے ، کپتان سرفراز احمد بھی ایک ساؤنڈ پلیئر ہے ۔ عمران خان بہت اچھا باؤلر تھا۔پاکستان میں جب مسٹر بھٹو کی سیاسی حکومت بنی ، وہ دور نسبتاً بہتر لگا گو کہ اس کے بعد بھٹو نے کچھ آمرانہ اقدامات بھی کیے۔بہر حال وہ ایک سیاسی حکومت تھی۔ ضیاء الحق کا دور بدترین تھا۔ترکی کا دارلحکومت استنبول (خاص طور پر اس کا وہ حصہ جو یورپ میں ہے) بہت پسند ہے اور پاکستان میں لاہورلیکن لاہور کے تہذیبی کلچر کو تباہ ہوتے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔
ذاتی پروفائل
عابد حسن منٹو 3فروری1932ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خواجہ احمد حسن جوشؔ مشہور وکیل اور سیاسی شخصیت تھے۔ اسلامیہ ہائی سکول مری روڈ (1942-46ء) اور گارڈن مشن کالج راولپنڈی (1947-52ء) کے بعد یونیورسٹی لاء کالج لاہور(1953-55ء) سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1956ء سے راولپنڈی میں وکالت شروع کی۔ طالب علمی کے دوران وہ انجمن ترقی پسند مصنفین راولپنڈی اور لاہور کے سرگرم رکن رہے۔ 1958ء سے انہوں نے لاہور ہائی کورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ میں وکالت شروع کی، جہاں وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشنوں کے صدر منتخب ہوئے۔ 1990ء میں وہ پانچ سال کے لیے عالمی انجمن جمہوریت پسند وکلا کے نائب صدر چنے گئے۔ لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق میں ترقی پسند تنقید کے دبستان کے آغاز میں اِن کا اہم کردار رہا ہے۔ وہ بائیں بازو کی سیاست، ٹریڈ یونین اور کسان تنظیموں میں مسلسل متحرک رہے ہی اور آج کل عوامی ورکرز پارٹی کے صدر ہیں۔ عابد حسن منٹو کی دوکتابیں نقطہ نظر (ادبی وتنقیدی مضامین) ،جنگ جاری رہے گی(انٹرویوز اور تقاریر ) شائع ہو چکی ہیں اور اب اپنی سوانح لکھ رہے ہیں ۔ اہلیہ تسنیم منٹوبھی جانی پہچانی قلمکارہیں۔ ’ذرا سی بات‘ کہانیوں پر مشتمل ان کی کتاب ہے ۔اولاد میں ایک بیٹا اور دوبیٹیاں ہیں ۔وکیل بیٹے بلال منٹو کی تصنیف ’’ماڈل ٹاؤن کہانیاں‘‘ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی ۔ایک بیٹی امریکا میں مقیم ہے جبکہ دوسری یہاں ایک نجی اسکول سسٹم کی انچارج ہیں۔
بشکریہ: 92 نیوز سنڈے میگزین