اساتذہ کے موثر کردار کی کمی کے باعث معاشرے سے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کا عنصر ختم ہو رہا ہے ۔

اساتذہ کے موثر کردار کی کمی کے باعث معاشرے سے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کا عنصر ختم ہو رہا ہے ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ مقررین کا خطاب

لاہور () پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ علم پر مبنی معاشرت کی بنیادیں مستحکم کیے بغیر معاشروں کو انتہا پسندانہ روش سے بچانا مشکل ہے ۔

ورکشاپ سے جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم مفتی ڈاکٹر راغیب حسین نعیمی، اسلامک انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈائریکٹر قاضی جاوید، معروف اسکالر اور الشریعہ اکیڈمی گوجرانولہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمار خان ناصر،سرگودھا یونیورسٹی کے ڈاکٹر شہباز منج ، معروف اسکالر اور محقق صاحبزادہ امانت رسول،المورد انسٹی ٹیوٹ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عامر عبداللہ،ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب، صحافی اور کالم نگار سبوخ سید اور پیس اینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن کے ڈائریکٹر مجتبیٰ احمد راٹھور نے خطاب کیا ۔

مقررین نے کہا کہ یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے علمی ماحول تباہ ہو چکا ہے ۔

مقررین نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم کا تعلیمی پالیسی میں کوئی ذکر نہیں اور رریاست عملا دینی تعلیم کے حوالے سے دینی مدارس پر انحصار کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس مختلف مسلکی تعصبات میں بٹے ہونے کی وجہ سے معاشرے میں فرقہ وارانہ ذہن فروغ پا رہا ہے ۔

جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم مفتی ڈاکٹر راغیب حسین نعیمی نے کہا کہ مروجہ نظام تعلیم کا واحد مقصد پوزیشن حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ شخصیت اور کردار سازی کی جانب اب اساتذہ کوئی توجہ نہیں دیتے ۔

مقررین میں اسلامک انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈائریکٹر قاضی جاوید نے کہا کہ ہمارے نصاب تعلیم میں جنگوں کا ذکر تو بڑے زور وشور کے ساتھ کیا گیا ہے جسے پڑھ کر طلباٗ انتہا پسندانہ سوچ کے حامل ہو رہے ہیں ۔

معروف اسکالر اور الشریعہ اکیڈمی گوجرانولہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمار خان ناصر نے کہا کہ ریاست کو تعلیم کے اہداف مقرر کر نے چاہیں اور اساتذہ کی تقرریوں میں بھی تقاضے پورے کئے جائیں ۔

سرگودھا یونیورسٹی کے ڈاکٹر شہباز منج نے کہا کہ معاشرے میں استاد کا کردار تبدیلی کی کنجی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی اور مذہبی جذبات میں توازن پیدا کرے ۔

معروف اسکالر اور محقق صاحبزادہ امانت رسول نے کہا کہ تعلیم کا محور ہمارے ہاں فرد نہیں بلکہ طبقات ہیں ۔ اس طرز فکر کی وجہ سے معاشرے میں تنوع کا احترام موجود نہیں ۔

المورد انسٹی ٹیوٹ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عامر عبداللہ نے کہا کہ اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کا دائرہ کار سوشل میڈیا تک بڑھائیں ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو انتہا پسندانہ خیالات کی جانب مائل کرنے والے موضوعات پر گہری فکری بحث کی ضرورت ہے ۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ معاشرے میں کئی مذاہب موجود ہیں تاہم تعلیمی اداروں میں ایک ہی مذہب کا نصاب پڑھایا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو شکایت ہے کہ انہیں ان کا نصاب پڑھانے کے بجائے اسلامیات پڑھائی جاتی ہے ۔

پیس اینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن کے ڈائریکٹر مجتبیٰ احمد راٹھور نے کہا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عصری اداروں اور مدارس میں خصوصی نصاب پڑھانے اور تربیتی ورکشاپس کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کے ذہنوں کو سامنے رکھ کر مسائل اور ان کا احل نکالا جا سکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے