اسلامی تاریخ کا شائد سب سے منتازعہ افطار بنی گالہ میں وقوع پذیر ھوا ۔ علم کی دنیا میں بھی بھونچال برپا ھوا ۔ یہ معلوم ھوا کہ نامحرم کے ساتھ افطار کرنا حرام ھے ۔ اس کو دیکھنا بھی خصوصا جب کہ وہ خوبصورت بھی ھو ۔ دعوت دینے کے لئے ضروری ھے کہ آنکھیں بند رکھی جائیں اور منہ کھلا ۔ تہذیب کا تقاضا ھے کہ داعی نامحرم کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھے ۔ اس کا دل بدلنے کے لئے اپنا ایمان خراب نہ کرے ۔
اب گھمسان کی جنگ برپا ھے ۔ حمایتی دعوتی پہلو کو نمایاں کر کے اس کی توجیہات دینے میں مگن اور مخالف شریعت کے اصول بیان کر کے سراپا تنقید ۔ حامی اس سے بے نیاز کہ اس کا دفاع اصول میں رکھ کر کیا جائے نہ کہ صاحب دعوت کے بیان کی روشنی میں ۔ اور مخالف اس بات سے عاری کہ اپنی فقہ ( حنفی ) کے بانی کی رائے کی روشنی میں میں ھی اس کی اباحت و اجازت کی طرف نظر کر لیں ۔ سوچتا ھوں ھم لوگ کس فکری پستی کا شکار ھیں ۔ مرقع جہالت و عدم برداشت ۔ مرکب بے حکمتی و فتوی بازی ۔ تنقید کرتے ھوئے کسی اصول سے ناآشنا ۔ دعوت سے زیادہ مناظرہ بازی کے آرزومند ۔ محبت سے زیادہ نفرت کے نقیب ۔ سیاسی مخالفت اسلامی اخوت و مودت کے جذبہ سے بھی زیادہ اہم ۔ علم کی اساسات سے زیادہ فقہی آرا پر ایمان لانے والے ۔
اللہ کے بندو دعوت کیسے دی جا سکتی ھے جب تک آپ مدعو کے ماحول میں نہ ڈھل جائیں ۔ جب تک اس کو قربت نہ محسوس ھو ۔ جب تک اس کی ذہنی سطح و دلچسپی آپ کو اپنا نہ سمجھے ۔ ویسے اس میں قصوروار طارق جمیل صاحب خود بھی ھیں۔ جب آپ دعوت کی بنیاد قرآن کے بجائے کمزور روایات کو بنائیں ۔ جب دلیل قصہ گوئی کا نام بن جائے ۔ جب علم وسعت کے بجائے سختی و تنگ دامنی کا نام ھو ۔ فطرت کے خلاف اسلامی احکامات بیان کئے جائیں ۔۔ روح کے بجائے ظاہریت ھی مقصد تقوی ٹھرے تو پھر ایسا ھی ھو گا ۔ آپ کو لوگ آپ کے بیان کردہ اصولوں کی بنیاد پر ھی پرکھیں گے ۔ جب نامحرم کی طرف دیکھنا گناہ بتایا جائے تو پھر آپ کی نظروں کا بھی تعاقب ھو گا ۔ چاھے لاکھ تاویلیں دیں مگر حرام حرام ھی رھے گا لوگوں کی نظر میں ۔ کیوں کہ اسی کی تعلیم دی ھے آپ نے 40 سال تک ان کو ۔ آپ نے حکم بتلایا ھے اس کے پیچھے علت نہیں بتائی ۔ اس کی وسعت نہیں بیان کی ۔ یہ قصور آپ کا ھے ۔ دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اگر آپ نے تعلیم دی ھوتی تو صورت حال مختلف ھوتی ۔
لوگ داعی و مفتی میں فرق کر کے آپ کے لئے کمزور روایات کا جواز تراش رھے ھیں ۔ یہ آپ کی اثر پزیری ہے ۔ حالانکہ اصول سب کے لئے یکساں ھوتا ھے ۔ اگر کوئی غامدی کسی روایت کو کسی اصول پر چھوڑے تو یہ لوگ فورا محدثین کے مقام پر بیٹھ کر منکر حدیث کا لقب عطا کرتے ھیں اور اگر کوئی طارق جمیل جھوٹی روایات کی تکرار کرے تو وہ خدمت دین کر رھا ھے اور عین حکمت ھے ۔امام حنیفہ اگر چہرے کے پردے کو ضروری قرار نہ دیں تو وہ فقیہ اعظم اور طارق جمیل اس پر عمل کر لے تو گمراہ ۔۔ یہ منافقت ھی ھمیں لے ڈوبی ھے ۔ ھم علم کو بھی شخصیات کے ترازو میں تولتے ھیں ۔ اگر ابو حنیفہ ٹھیک ھے تو طارق جمیل غلط نہیں ھو سکتا ۔ اور اگر طارق جمیل نے نامحرم کو دیکھنا حرام قرار دیا ھے تو پھر حنفیت کا دم بھرنا درست نہیں ۔۔ فیصلہ کرو کہ اصول اہم ھیں یا بیان کرنے والا ۔
کیوں مولانا صاحب پتہ چلا دعوت کو مخصوص فقہی ڈھانچے پر استوار کرنے کا انجام ۔ اس لئے اب آپ بھی اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں ۔ اللہ اس میں سے آپ اور سب کے لئے بھلائی کی صورت پیدا فرمائے ۔ آمین