مایوس نہیں ہونا

لفظ مایوسی کو سنتے ہی دل و دماغ پہ افسردگی سی چھا جاتی ہے اگر انسان اس کے کنارے کنارے رہے تو بچ پاتا ہے اور اگر اس کے تہہ میں اتر جائے تو پھر بچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔مایوسی کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی وقت انسان پر حملہ آور ہو جاتی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کے مایوسی سے کوئی انسان بچ پائے مگر اس کے تہہ میں اترنے سے ہر ممکن صورت گریز کیا جائے ۔مایوسی کا خواہشات کے ساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ خواہشات کا حصول اور اس میں ناکامی مایوسی کا سبب ہے ۔ اس دنیا میں خواہشات کی تکمیل کبھی نہیں ہو سکتی جس کی جتنی خواہشات پوری ہوتی جائیں گی اسے اس سے زیادہ اور خواہشات جنم لیں گی ۔یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خواہشات کی ایک حد ہے جہاں پہ جا کر ان کی تکمیل یا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔یہاں سے ہی مایوسی جنم لیتی ہے ، خواہشات کا مسلسل حصول اور اس میں کامیابی اور ناکامی ۔کبھی کبھی چھوٹی سی ناکامی بھی بڑے بڑے انسانوں کی تباہ کا باعث بن جاتی ہے ۔یوں تو مایوسی سے ہر کوئی مایوس ہوتا ہے مگر مایوسی میں مبتلا ہو کر بھی مایوس نہ ہونا ایک بڑی بات ہے ۔

جیسے ہم کوئی بھی کام کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور ہمارا ذہن صرف مثبت رہتا ہے یعنی یہ کام میں نے فلاں دن ،فلاں وقت پر ختم کرنا ہے اگر تو وہ کام اسی دن اور اسی وقت پہ احتتام کو پہنچے تو ٹھیک اور اگر اس مقررہ دن اور مقررہ وقت پہ کام احتتام نہ ہو تو انسان کے لیے وہ وقت برداشت کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے ، اسی وقت میں وہ کئیں انہونی غلطیاں کر بیٹھتا ہے ،کبھی کبھی ایسی غلطیاں کر دیتا ہے کہ جس سے اسکی خود کی جان چلی جاتی ہے یا پھر کئیں دوسروں کی جانیں ۔ یہی وہ وقت ہے جو انسان کو تکلیف تو بہت دیتا ہے مگر ایک سبق بھی دیتا ہے اگر وہ سبق پہچانا جا سکے تو آنے والے ایسے وقت میں وہ انسان اس تکلیف دہ وقت کو بڑی آسانی سے بسر کر لیتا ۔

انسان اگر کوئی کام کرنے کا سوچتا ہے تو یقیناً اسے مثبت سوچ رکھنی چاہیے ۔ اب جو بات میں کرنے جا رہا ہوں وہ بہت اہمیت کی حامل ہے ،یعنی مثبت سوچ کے ساتھ منفی سوچ بھی انسان کو رکھنی چاہیے ،یہاں منفی سوچ سے مراد غلط سوچ نہیں بلکہ اگر کوئی کام کرنا اور مقررہ وقت پہ کر گزرنا ہی مثبت سوچ ہے تو اسے منفی سوچ ایسی رکھنی چاہیے کہ ہاں دونوں ہو سکتا ہے ، اول تو میں اس کو اپنے ٹارگٹ پہ مکمل کر لوں اور مکمل کر بھی نہیں سکتا ۔جب اس کے ذہن میں پہلے ہی سے یہ بات تھی تو بڑے سے بڑا کام بھی اگر فیل ہو جائے تو اسے مایوسی نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو بہت کم جس سے اس کی زندگی پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔(الروم)
پھر ارشاد ہوتا ہے

انسان اپنے لئے بھلائی مانگتے نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔

یعنی انسان جب رب کی رحمت سے خوب مزے لیتا ہے اور اس دوران وہ اپنے رب کا شکر بجا نہیں لیتا ،پھر جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً مایوس ہو جاتا ہے ۔یہ رب سے بھلائی مانگتا ہے اور جب کبھی اسے کوئی رنجش پہنچتی ہے تو یہ مایوس اوراس کا دل پریشان ہو جاتا ہے ۔ رب تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں سے خوب نوازتا ہے ، کبھی وہ انہیں نعمتوں کے انمبار لگا کر انسان کو آزماتا ہے اور کبھی کوئی نعمتیں چھین کے۔ انسان کو چاہیے کہ رب تعالیٰ کی اس آزمائش پر پورا اترے ، وہ ہر حال میں خوش ہو ۔ اگر اسے نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو رب کی طرف سے اور اگر اسی رب کی طرف سے کسی آزمائش کے لیے کوئی تنگی کر دی گئی ہو ۔

مایوسی گناہ ہے ۔جس میں کوئی بھی لذت نہ ہو یہ ایسا گناہ ہے ۔مایوسی صرف تکلیف ،تباہ و بربادی لاتی ہے اور انسان پر کہیں نہ کہیں سے حملہ آور ہو جاتی ہے ۔ جب یہ حملہ آور ہو جاتی ہے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مایوسی سے مایوس نہیں ہوتے ۔یوں تو ہر گناہ کی اپنی سزا ہے اور ہر گناہ انسان کے لیے نقصان دہ اور خطرناک ہے ۔ پر مایوسی کئی گناہوں سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بعض اوقات انسان اتنا مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ رب کی رحمت و مغفرت اور نصرت سے بھی مایوس ہو جاتا ہے اب یہاں مایوس ہونا انسان کے لیے بہت خطرناک ہے ۔کئیں اسے یہ مایوسی آخرت کے ہاں جہنم کی طرف نہ دھکیل دے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے