یہ ایک شاعر، ادیب اورعالم کے قلم سے نکلے ہوئے سدا بہار خاکے ہیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کے بارے میں احباب بتاتے ہیں کہ آپ ان سے گھنٹوں گفتگو کرلیں ،مگر مجال ہے آپ کو اس دوران کسی کی برائی سننے کو ملے۔ خورشید رضوی کے چاہنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ان کے سامنے کسی کی برائی کی جانے لگے تو کمال متانت سے بات کا رخ بدل دیتے ہیں ۔ مخاطب زیرک ہو تو اس عالمانہ احتجاج کا ادراک کر لیتا ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کی نئی کتاب’’ بازدید‘‘ کی سطر سطر ان کے اس مزاج کی عکاس ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اردو ادب کی ممتاز شخصیات کے ساتھ وابستہ اپنی یادیں رقم کی ہیں۔ کتاب میں شامل تحریروں سے شگفتگی کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کا عالمانہ وقاربھی عیاں ہے۔
پہلا خاکہ مولانا روحیؒ کا ہے، جنہیں ڈاکٹر خورشید رضوی نے دیکھا تو نہیں لیکن ان کے علم اور تقویٰ کے بارے میں ان کے فرزند اور اپنے استاد ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق سے اس قدر سُن رکھا تھا کہ ایک مفصل اور دلچسپ تحریر کا جواز پیدا ہو گیا۔ مصنف نے اس تحریر کو ’ماورائے دید ‘کے قبیل سے قرار دیا ہے
اسی طرح معروف شاعر اختر شیرانی کا خاکہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ اس خاکے میں اختر شیرانی کا ایک الگ ہی رخ دیکھنے کو ملتا ہے ، اختر شیرانی کے ساتھ ان کے والد حافظ محمود شیرانی کے قطع تعلق کے باوجود علمی تحقیق میں والد کا ان سے معاونت لینے کا واقعہ منفرد ہے۔
’ بازدید‘ میں شامل خاکوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں صرف شخصیات کے میل جول کے رجحانات اور عادات تک محدود نہیں رہا گیا بلکہ ان کے کلام سے قاری کو متعارف کرانے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، مجید امجد، منیر نیازی، شہزاد احمد، اختر جعفری اورخالد احمد کے تذکرے میں ان کے منتخب اشعار پر فاضلانہ تبصرے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور مُشفق خواجہ سے جڑی یادوں کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مشفق خواجہ کے مصنف کے نام چار خطوط بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
انتظار حسین کے ساتھ مصنف کی کافی یاد اللہ تھی ۔ یکے بعد دیگرے دو عنوانات کے تحت انتظار حسین کو یاد کیا ہے۔ انتظار حسین پر لکھی گئی دوسری تحریر میں رنج کی فضا صاف محسوس ہوتی ہے۔ ممتاز شاعر شہزاد احمد کی شخصیت اور ان کے کلام کا ذکر خاصے کی چیز ہے۔
اس کے علاوہ بعض ایسی شخصیات کے خاکے بھی اس کتاب میں پڑھنے کو ملتے ہیں جو شہرت کی ان بلندیوں تک تو نہیں پہنچے لیکن ان کے علمی رسوخ میں کوئی کلام نہیں ۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے ابتداء میں وضاحت کی ہے کہ یہ تحریریں چالیس برس کی قلم فرسائی پر مشتمل ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں ترتیب زمانی کو ملحوظ نہیں رکھا ہے ۔ ہاں جہاں محسوس کیا ،آخر میں چند سطور کی وضاحت رقم کر دی جس سے قاری کے لیے سہولت پیدا ہو گئی ہے ۔
اپنے بعض قریبی دوستوں مثلاً پروفیسر عابد صدیق، ذوالکفل بخاری، جمیل یوسف اور صادق نسیم کو بہت محبت سے یاد کیا ہے۔ صادق نسیم کے خاکے میں جمال الدین افغانی کے تابوت کی لاہور آمد کا تذکرہ نئی بات ہے ۔ یہ 1944ء کا واقعہ ہے مگر کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اس سے آگاہ ہوں۔
اسی طرح کتاب کے ابتدائی صفحات میں حکیم نیر واسطی کا تذکرہ کیا ہے ، ان کے علاج کی بدولت مصنف نے فمِ معدہ کے دَرد سے شفا پائی تھی۔
حکیم صاحب کو جب ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنا مجموعہ ’’شاخِ تنہا‘‘ ہدیہ کیا تو اس پر ایک عربی شعر رقم کیا جو ہر اعتبار سے حسب حال تھا، شعر کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
’’چُھپا ہوا روگ
اُس پر یوں منکشف ہوجاتا ہے
جیسے تالاب کی تہ میں پڑے سنگریزے
نگاہ کی زد میں آجاتے ہیں‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی عربی زبان وادب کے ثقہ عالم ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے عربی ادب کے تعلق سے اپنے کچھ احباب کو یاد کیا ہے جن میں علامہ عبدالعزیز میمن، ڈاکٹر پیر محمد حسن ، سید محمدکاظم ،عبدالباری انجم شامل ہیں۔ ان سب تحریروں میں جا بجا عربی زبان و ادب کی باریکیوں پر دلچسپ نکتہ سنجیاں اربابِ ذوق کی دلچسپی کا سامان کرتی ہیں۔
شام کے مشہور شاعر نِزار قَبَّانی کی ایک مقبول نظم جسے مصر کی معروف مغنیہ نجاۃ الصغیرہ نے گایا ہے ،عبدالباری انجم نے اس نظم کی اردو میں منظوم ترجمانی کی ہے، جو اس کتاب میں شامل ان کے تذکرے کا حصہ ہے۔مختصر یہ کہ ’’بازدید‘‘ ادبی ذوق کے حامل قارئین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں ہے ۔
کتاب القا پبلیکیشنز لاہورنے نفاست کے ساتھ شائع کی ہے۔