25 جون کو پنجاب کے شہر
بہاولپور، احمد پور شرقیہ میں ایک پڑول سے بھرے ٹینکر کو حادثہ پیش آیا اور بعد ازاں ٹینکر آگ لگنے سے پھٹ گیا جس میں 150 افراد
کی اموات کی تصدیق ہو چکی ہے ۔ اور سو کے قریب افراد بری طرح سے جھلس گئے ہیں۔۔۔۔
بڑے پیمانے پر اموات کی وجہ کسی مسافر گاڑی سے ٹینکر کی ٹکر نہ تھی، بلکہ ٹینکر سے خارج ہونے والا پیٹرول تھا جس کی بو نے اردگرد کے افراد کے غریب اور جان دشمن افراد کو اپنی آگ میں جھلسایا۔۔
اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی کہ شاید کہ اس جیسی کوئی مثال ڈھونڈنے سے ملے گی۔ جہاں رمضان کے آخری عشرے میں لوگ بخشش کی دعائیں کرتے تھے وہاں ایسے بھی افراد تھے کہ جن کو اللّہ کے عذاب نے نیست و بابوت کر دیا۔۔۔اتنے بڑے پیمانے پر آگ نے جہاں گاڑیوں کو مکمل جلا کر رکھ دیا کہ وہ سجی بن کر رہ گئیں، وہاں انسان کی کیا مجال کہ اپنی کوئی نشانی اپنے پیاروں کے لئے چھوڑ جاتا۔۔۔۔؟؟؟
یہ وہ افراد تھے جنھوں نے بہتی گنگا میں لوٹے سے لے کر چالیس لیٹر والی کینز بھرنے اور پھر اسے مفت کا مال سمجھ کر بیچنے کی ٹھانی تھی۔۔۔۔
وہ رمضان المبارک کا تقدس بھول بیٹھے تھے۔۔۔۔ ان کی نظر میں مفت کا مال جائز تھا۔۔۔ اللّہ نے چن چن کر ایسے افراد کو یہاں لایا جو واقعی طور پر برے افراد تھے۔۔۔ جو مصیبت کی اس گھڑی میں مصیبت زدہ افراد کو بھول کر مال غنیمت / اپنی ہی جمع کی ہوئی آگ میں جھلس گے۔۔۔
اب ذرا ایک نظر پاکستان کے تاریخی حادثات پر:
پاکستان کی تاریخ کا پہلا بڑا ریل حادثہ ستمبر 1957ء میں پیش آیا جب اوکاڑہ کے قریب گمبر کے مقام پر کراچی جانے والی ایک مسافر ریل گاڑی پوری رفتار سے آئل ٹینکر ٹرین سے ٹکرا گئی۔ واقعے میں 300 افراد کی جانیں گئیں۔ ان میں سے تیل بھرنے کے لئے کوئی نہ آیا۔۔ بلکہ یہ ایک خالصتاً حادثاتی اموات تھیں۔۔۔۔
سب سے بڑا اور افسوسناک حادثہ 3 جنوری 1990ء کو سکھر سے کچھ دور سانگی کے مقام پر پیش آیا۔ بہاء الدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی جارہی تھی۔ اس کی 16 بوگیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ اسے سانگی سے سیدھا نکل جانا تھا لیکن غلط پٹری پر چلے جانے کی وجہ سے وہ ایک خالی ریل گاڑی سے جاٹکرائی۔ اس وقت رفتار کم از کم 56 کلومیٹر فی گھنٹہ تھا۔ انجن اور پہلی تین بوگیاں بری طرح متاثر ہوئیں اور 307 افراد کی جانیں گئیں۔ زخمیوں کی تعداد بھی 700 سے زائد تھی۔
کتنے ایسے چھوٹے بڑے حادثے بھی ہوئے کہ اس میں بھی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔۔ اگر یہ آئل ٹینکر کسی کم گنجان آباد علاقے میں حادثے کا شکار ہوتا یا کسی جنگل کے قریب تو امید کی جا سکتی تھی کہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہوتی۔۔۔ اس کی وجہ آبادی سے دوری ہوتی۔۔۔
مگر ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ اگر مسافر کوچوں میں تصادم بھی ہو تو زخمیوں اور مرنے والے افراد کا سامان ہتھیا لیا جاتا ہے۔۔ عورتوں سے ان کے سونے کے زیورات اتار لئے جاتے ہیں۔۔۔ جیبیں خالی کر لی جاتی ہیں۔۔۔۔۔ آج کل موبائل فون کو ہتھیانا معمول بن چکا ہے۔۔۔۔۔ قیمتی سامان بھی غائب ہو جاتا ہے۔۔۔
پر دوسری طرف ہم وہ نام نہاد مسلمان ہیں جو مذہب کے نام پر "مشال” کو جانوروں کی طرح مار دیتے ہیں۔۔۔
نماز،روزہ دور کی بات ہے پر ہم مذہب کے علمبردار ہیں۔۔۔ ناموس رسالت پر ہماری جان بھی قربان ۔۔۔۔ پر یہ وہ افراد ہیں جنہيں اسلام بارے کوئی خاص تعلیم تو نہیں حاصل ہوتی مگر نام نہاد شرانگیزی پھیلانے والےافراد کے لئے ان کے پاس خود ساختہ ڈیتھ وارنٹ/ بلیک وانٹ موجود ہوتے ہیں۔۔۔
علم اور آگاہی کی کمی ایک بہت بڑی وجہ ہے ہمارے معاشرے کی۔۔۔ ورنہ کون بیوقوف ہے جو جلتے ہوئے بارود کو سیمٹ کر گھر لائے۔۔؟؟؟
کہتے ہیں کہ ماں اپنے بچے کو لاکھوں کے مجمعے میں سے بھی پہچان لیتی ہے۔۔۔ مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان ڈیڑھ سو افراد جو جھلس کر راکھ ہو گئے میں سے کس کی ممتا میں اتنا دم ہے کہ وہ پہچان سکے اپنے جگر گوشوں کو ؟؟؟
حادثات ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔ آگ میں وہ افراد بھی جھلس مرتے ہیں۔۔۔۔ مگر ان کی وجہ مال غنیمت کو اکٹھا کرنا نہیں ہوتا بلکہ جان بچانے والے رستوں کی بندش ہوتی ہے۔۔۔۔۔
میرا کالم لکھنے کا ہر گز مقصد یہ نہیں کہ جلتی پر تیل ڈالوں۔۔۔۔ کیونکہ یہ سارے تیل کی آگ سے ہی جلے ہوئے ہیں۔۔۔ !!!!
میرا مقصد صرف اپنی بات کو قارئین تک پہنچانا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس انداز میں کریں کہ اگر وہ کسی مصیبت زدہ شخص کو دیکھیں تو اس کی مدد کو جائیں نہ کہ اسے نہتہ کر کہ لوٹیں۔ ان مرنے والوں میں جیسے کسی کی پہچان مشکل عمل ہے ایسے ہی ان افراد کو ڈھونڈنا بھی ایک مشکل ترین مرحلہ ہے کہ مدد کو کون آیا تھا ؟؟؟ اور کین بھرنے کون ؟؟؟