’کوئی جج، کوئی جنرل صادق اور امین نہیں‘

ملک کے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے پاناما کیس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے سیاستدانوں سے تو ان کے اثاثوں پر سوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن کیا کوئی ججز اور فوج کے جنرلز سے بھی سوال کرے گا کہ انہوں نے یہ اثاثے کیسے بنائے؟

ملتان میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے آغاز ہی میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ شاید یہ میری آخری سیاسی پریس کانفرنس ہو، میں اس ملک میں سیاست کے 50 سال گزار چکا ہوں۔

انہوں نے ججز اور جنرلز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کوئی جج یا جنرل یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ صادق اور امین ہے، انہوں نے مزید کہاکہ دنیا کی ایک ہی ہستی ہے جو صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے جو محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہیں۔

انہوں نے موجودہ جمہوری نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایسا راستہ اختیار کیا جاتا ہے کہ غریب کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، لوگوں کو ان کے معاشی حالات کی بہتری چاہیے اور ملک کسی کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس ملک کے ساتھ بہت ظلم ہوئے ہیں، آج بھی اس ملک کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں، میرا ضمیر کہتا ہے کہ سب باتیں کہہ دوں، کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے۔

پرویز مشرف کو بھگوڑا قرار دیتے ہوئے جاوید ہاشمی نے بتایا کہ وہ لیفٹننٹ کی حیثیت سے فوج سے بھاگ گئے تھے اور وہ آج بھی بھگوڑے ہیں، انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف فرار ہوگئے تھے اور یہ ایک فراڈ شخص تھا جسے پکڑ کے دوبارہ فوج میں لایا گیا، لیکن اب وہ بادشاہ بن کر باتیں کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق بھی سوال نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ سابق جنرل راحیل شریف کے حوالے سے ان کے ایک دوست نے انہیں خبردار کیا تھا کہ نوازشریف کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ جنرل راحیل کے ایک اشارے سے پورا ملک ہل جاتا ہے۔

انہوں نے جنرلز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قوم ان کو آنکھوں پر بیٹھاتی ہے اور ’ایک جوہری طاقت کے حامل ملک کے جنرلز اپنی میعاد مکمل کرنے کے بعد امریکا میں جاکر اپنے اصل جی ایچ کیو کو رپورٹ کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے تمام سابق سربراہان امریکا میں مقیم ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان جنرلز کی جائیدادیں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، دبئی اور ملک کے دیگر حصوں میں موجود ہیں، کیا ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ انہوں نے یہ اثاثے کس طرح بنائے، ’جب بھی قربانی دینی پڑی ہے وہ سیاست دانوں نے دی ہے‘۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’اگر سیاست دانوں کا احتساب لازم ہے تو وہ جج جس کی پاناما میں جائیداد ہے اور وہ سپریم کورٹ کا حاضر سروس جج ہے، کیا ان کا کوئی نام لے سکتا ہے، کیا ان کا کوئی احتساب کرسکتا ہے؟ کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ تم نے پاناما میں کیوں پیسے دیئے ہیں؟ کیوںکہ کسی کی جرات نہیں ہے‘۔

سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ میرے خلاف بننے والی جے آئی ٹی نے مجھے کلیئر کر دیا تھا، نواز شریف نے میری راہ میں بہت رکاوٹیں کھڑی کیں، نواز شریف یا عمران خان سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، عمران خان کو تو صرف ایشو اٹھانا ہوتا ہے۔

انہوں نے ماضی میں عمران خان سے اچھے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے کئی واقعات میرے سامنے ہیں، سیاست میں سرد و گرم واقعات دیکھے ہیں، عمران خان نے میری بہت تعریفیں کیں، جن پر 2 کتابیں بن سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران جو کچھ کہا اس پر قائم ہوں، میرے عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں، اگر میں نے کچھ غلط کہا ہو تو عمران خان میری باتوں کو رد کر دیں۔

انہوں نے شیخ رشید کو اپنا درباری قرار دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے انہیں میری جاسوسی پر لگا رکھا تھا، میں کبھی بھی نواز شریف کی کچن کیبنٹ کا حصہ نہیں رہا جبکہ میرا درباری ان کی کیبنٹ کا حصہ ہوتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید مجھے مرشد کہتے تھے۔

ان سے قبل جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں ایک تقریب میں خطاب کے دوران کہا کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سی پیک منصوبے کے خلاف یکجا ہوگئیں ہیں، اپوزیشن کو نوازشریف کی دولت آج نظر آرہی ہے، کیا وہ پہلے دولت مند نہیں تھے؟

مولانافضل الرحمن نے وزیراعظم نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے پاناما کیس کو ’بلا‘ قرار دے دیا اور مخالفین کو کہا کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان قربت کے ساتھ ملک کے خلاف سازشٰن بھی عرج پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کی درخواست اس عمارت پر کھڑی ہے جس کو عدالت نے فضول قرار دیا تھا، انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کوعدم استحکام کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ رواں سال جون کو ایک پریس کانفرنس کے دوران سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ ‘حالیہ دنوں میں کئی مسائل سامنے آئے ہیں اور پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ساکھ کے حوالے سے بھی مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے، اگر جے آئی ٹی متنازع ہوجاتی ہے تو لوگ اس کی انکوائری کو تسلیم نہیں کریں اور نواز شریف مظلوم بن کر سامنے آئیں گے’۔

سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ججز کو بھی ریمارکس دیتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے، انہیں کسی کو گاڈ فادر قرار دینے یا سیاسی مافیا سے تقابل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

جاوید ہاشمی کے مطابق ‘چند ریاستی اداروں اور بیوروکریسی نے ماضی میں ملک کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے آمروں کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنانے کے لیے وہ دباؤ کا شکار تھے ، اگر قوم کا عدالتوں پر اعتماد قائم نہیں رہتا تو وہ کس پر بھروسہ کریں گے؟’

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2013 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت خلاف دارالحکومت اسلام آباد میں 126 روز تک دھرنا دیا تھا،جسے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ختم کردیا گیا تھا، اس دھرنے کے وقت جاوید ہاشمی ان کی پارٹی میں شامل تھے۔

دوران دھرنا یہ اطلاعات آئی تھیں کہ جاوید ہاشمی فوج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے کے معاملے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر اسلام آباد سے ملتان روانہ ہوگئے۔

بعد میں جاوید ہاشمی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پارٹی کے تمام فیصلے میری مشاورت سے ہوئے، فوج کے پاس عمران خان کے جانے کے فیصلے میں میری رائے شامل تھی، میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔

بعد ازاں پی ٹی آئی نے دھرنے کے دوران فوج کی ثالثی کے انکشافات کرنے پر جاوید ہاشمی کی رکنیت معطل کردی تھی، جس کے بعد جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کو الوداع کہہ دیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے