سب چور ہیں !!!

کافی دن گزر گئے تھے کہ میں نے کچھ نہ لکھا۔ آجکل تین ماہ کے لئے فری تھا کیونکہ میں نے الحمداللہ پہلے سال کے دس امتحانات پاس کر لئے ہیں اور گیارہواں امتحان ستمبر میں ہوگا جبکہ بارہواں ان شا اللہ اگلے سال ایک دوسری یونیورسٹی میں ہو گا۔

آج میں نے ایک تصویر فیس بک پر پوسٹ کی لیکن اس سے قبل جب میرے دوستوں نے یہ تصویر یونیورسٹی میں میرے موبائل میں دیکھی تو بڑے حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ یہ تصویر کس علاقہ کی ہے ؟ وہ تصویر میں موجود جنگل اور سبزہ سے بہت متاثر ہوئے اور اسے سوئٹزرلینڈ سے تشبیہہ دینے لگے۔

جب میں نے کہا کہ یہ ہمارا کشمیر ہے تو ان کو تعجب بھی ہوا کہ اتنی خوبصورت جگہ سوئس کہ علاوہ بھی ہو سکتی ہے ۔۔! اور ان میں سے اکثر نے کہا کہ اس تصویر کو ایڈٹ کیا گیا ہے اور یہ پرانے زمانے یعنی پتھر کے دور کی تصویر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس میں ایک آدمی اپنے بچوں کو کندھے پر اٹھا کر تار پر چل کر خوفناک دریا عبور کر رہا ہے !!!!

اصل میں یہ اس کا ذہنی پس منظر تھا جیسا کہ اس نے کسی سے سن رکھا ہو گا کہ پتھر کے دور میں انسان ایسے زندگی گزارتے تھے۔۔۔

اسے کیا معلوم کہ دنیا میں اب بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں حکمرانوں کے ٹوئیٹر پر اکاؤنٹ ہیں، لنکڈان اور فیس بک پر بھی اکاؤنٹ ہیں۔ غرضیکہ سوشل میڈیا پر ہر جگہ ان کے اکاؤنٹ موجود ہیں، مگر ان کی ریاست میں دریاؤں اور برساتی ندی نالوں پر پل موجود نہیں ہیں۔۔۔۔!!!!

میں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھ "کارمن” وہاں کے عوام سیاسی لوگوں کے موروثی غلام ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ تبدیلی آئے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچوں کا مستقبل تابناک ہو، عوام خود ہی نہیں چاہتے کہ ان کے ہسپتال اچھے ہوں اور انہیں صحت کی تمام سہولیات ملیں۔۔۔

میں نے اسے کہا کہ دیکھ "کارمن” دنیا کا بد ترین زلزلہ آزاد کشمیر میں آیا زمین اوپر کی نیچے ہو گئی۔ پوری پوری بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور دنیا بھر سے امداد آئی اور اتنی مقدار میں آئی کہ اس طرح کے کئی اور شہر اور بستیاں از سرے نو تعمیر ہو سکتی تھیں مگر کچھ نہیں ہوا۔۔۔ امداد متاثرین تک پہنچی نہ وہ بستیاں تعمیر ہوئیں مگر وہاں کے حکمرانوں کے بنک اکاؤنٹس بھر گئے۔۔۔ دس عوام پر خرچ ہوئے جبکہ نو سو اسی (980) روپے بنک میں بنام حکمران جمع ہو گے!!!

کارمن تو میرا یونیورسٹی کا بہت ہی اچھا دوست ہے لہذا میں دل کی بات صرف تجھ سے شئیر کی ہے۔

کارمن نے مسکرا کر کہا کہ میں نو سال سے اٹلی کے سب سے بڑے ٹی وی چینلز(RAI TV) کے ساتھ منسلک ہوں ۔ متعدد یورپی، افریقی اور شمالی و جنوبی امریکہ کے ممالک میں گیا ہوں۔ افریقی ممالک میں جہاں انسانیت نام کی چیز مشکل سے کہیں ملتی ہے میں نے ایسا دل خراش منظر وہاں بھی نہیں دیکھا۔۔۔!!! وہاں بھی ندی نالوں پر پل تعمیر ہیں۔۔۔ ہسپتال بھی اقوام متحدہ کے اداروں نے بنا رکھے ہیں۔۔۔ کوئی ہسپتال جائے یا نہ جائے یہ الگ بات ہے۔۔۔!!! وہ جنگلی لوگ ہیں۔۔۔ وہ کپڑے تک نہیں پہنتے۔۔۔۔ ٹوئیٹر دور کی بات ہے ان کے بڑے بڑے معاشی گھرانوں کے افراد کا بنک اکاؤنٹ نہیں ہو گا۔

"حسین” تم مجھے کیسے کہتے ہو کہ ہمارے حکمرانوں کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس موجود ہیں جبکہ مجھے آپ کے علاقوں میں برساتی ندی نالوں اور دریاؤں پر پل تک نظر نہیں آتے۔۔۔؟؟؟؟

آپ کے عوام غلط ہیں کیونکہ جب ان کے نمائندے ایک بار ٹھیک کام نہیں کریں گے تو کیسے ان کو کوئی دوسری بار اسمبلی تک پہنچائے گا ؟؟؟؟

آپ کے حکمران مجھے واقعی ” علمی ” لگتے ہیں جو جاہل عوام پر ہر بار مسلط ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کے عوام واقعی طور پر پڑھے لکھے ہیں ؟؟؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے بھی پاکستان و کشمیر کے حالات پر ڈاکیومنٹری بنانے کے لئے جانا پڑے گا۔۔۔۔

مجھے معلوم ہے کہ ایک پاکستانی وزیراعظم نے ترکی کے صدر کی بیوی کا نیکلس بھی غائب کیا تھا(یوسف رضا گیلانی)۔۔۔۔

مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہاں کی ایک مذہبی جماعت کے رہنما پیسے لیکر فتوے دیتا ہے(شاید کہ وہ فضل الرحمان کی طرف اشارہ کر رہا تھا)

مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا کہ وہ واحد ملک پاکستان ہی ہے جہاں عوام ٹیلی فونک خطاب سن کر روتے دھوتے اور لوگوں کی جانیں لیتے ہیں۔(الطاف بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)۔

میں پاکستان کبھی نہیں گیا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ وہاں کوئی بھی سسٹم موجود نہیں ہے۔۔۔۔ وہاں ائیرپورٹ پر امیگریشن والے باہر آنے جانے والوں سے ایسے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو پیسے نہ ملے تو ان کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔۔۔۔!!!!

"کارمن ” نے ہنستے ہوے کہا کہ دیکھ "حسین "مجھے پاکستان کی موجودہ حکومت بارے کچھ علم نہیں ہے۔ لہذا اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔۔۔۔!!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے