معاشرے کی کچھ خرابیوں کو مٹانے کے لئے ایک ادنی سی جو کوشش میں نے شروع کی ہے اسی کوشش کو جاری رکھتے ہوئے اور اپنے اور اپنے پڑہنے والوں کے درمیان ایک قلمیی رشتے کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی سوچ کو اور اپنے ذہن میں موجود تخیلات کو الفاظ کا لباس پہناتے ہوئے آپکی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔ آجکا زیر بحث موضوع ہمارے معاشرے میں کثرت سے پا ئی جانے والی برائی “بدگمانی” ہے۔ بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ اپنی روزمرہ زندگی میں کسی شخص سے تعلق نبھائے بغیر آپ اس شخص کے بارے میں ایک منفی رائے قائم کر لیں۔ اس معاملے میں اپنے ذاتی تجربے کو بنیاد بنانے کی بجائے کچھ پروپیگنڈہ کرنےوالے لوگوں کی رائے کو حتمی لینا اور اسی کو اول وآخر سمجھنا بھی شامل ہے۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ملتے ہیں۔ جن لوگوں سے آپکا میل ملاپ ہوتا ہے کیا وہ لوگ آپکی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ؟ جی ہاں بالکل ۔ لوگ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار تو یہ لوگ ہماری پہچان کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں سے ہمیں فا ئدہ حاصل ہوتا ہے تو کچھ لوگ ہمارے نقصان کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہ فائدہ یا نقصان معاشی بھی ہو سکتا ہے اور معاشرتی بھی۔
بدگمانی ہمارے معاشرےمیں پایا جانے والا ایک ایسا زہر ہے جو کئی رشتوں کا قاتل بن سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ تحفہ ہمیں ان لوگوں سے ملتا ہے جن لوگوں سے ہمارا روز کا ملنا جلنا ہوتا ہے۔ اسکی وضاحت کے لئے ایک فرضی مثال آپ سب کی نذر کرنا چاہوں گی۔
ہوا یوں کہ ایک دفتر میں ایک نیا ملازم آیا۔ اس ملازم کو جو ذمہ داری سو نپی جاتی تھی وہ احسن طریقہ سے اسے مکمل کر دیتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس دفتر میں ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ اس دفتر کا افسر اس سے بہت خوش تھا۔ اس کی یہ شہرت اس کے colleague کو جو پہلے ہی وہاں ملازمت کر رہا تھا، پسند نہ آئی۔ وہ اس ملازم سے اسکی ذمہ داری نبھانے کی عادت اور اسکی شہرت تو نہیں چھین سکتا تھا لہذا اس کے خلاف دفتر میں مختلف باتیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ منفی باتیں اس کے کردار اور شخصیت کے بارے میں تھیں۔ مثلا کہا گیا کہ یہ شخص اتنا ایماندار نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے، اس نے میرے ساتھ برا سلوک کیا ہے، یہ لوگوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتا، یہ دفتری معاملات میں جھوٹ بولتا ہے، یہ معاملات طے کرتے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سارے معاملے میں جس شخص کے بارے میں لوگوں کو بد گمان کیا گیادفتر کے سارے لوگ اسکو ویسا ہی سمجھنے لگے کیونکہ جو شخص بدگمان کر رہا تھا وہ اسکا colleague تھا اور دفتر میں اچھا خاصا وقت گزارنے کی وجہ سے اسکی بہت سے لوگوں سے جان پہچان ہو چکی تھی۔ اس شخص نے لوگوں کو اس ملازم کے بارے میں بدگمان کر کے اسکی مقبولیت کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے اور کافی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوا۔ اپنی ملازمت کے دوران اس کی شخصیت اور ساکھ کا یہ نقصان اسکے دفتر میں موجود اس شخص کی وجہ سے ہوا جس نے اس کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوگوں کے بارے میں بدگمان کیوں کیا جاتا ہے؟ بدگمانی کی پیدائش کہاں سے ہوتی ہے؟ بدگمانی کے نقصانات پر شائد کچھ نہ کچھ لکھت میں موجود ہو لیکن اس برائی کی جڑوں اور اسکی پیدائش کی وجوہات کو شائد زیر قلم نہیں لایا گیا۔ مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں میں بدگمانی پھیلانے کی شرح زیادہ ہوتی ہے جو اپنی زندگی میں اپنی موجودہ حالت، جگہ یا پوزیشن سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اس قسم کے لوگ اپنے اردگرد نئے آنے والے لوگوں کی مقبولیت سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں۔ وہ اپنی شہرت کے ساتھ دوسروں کی شہرت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ ” راج ” کرنے والا مزاج رکھتے ہیں۔ اپنے اس “راج” کرنے والے مزاج کی تسکین کے لئے وہ دوسروں کی ساکھ کو ناجائز طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔ بدگمانی کی ایک بڑی وجہ انسان کے ذہن میں آ نے والی بے بنیاد سو چیں بھی ہو سکتی ہیں۔ عام طور پر بدگمانی کا عنصر ان لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے جنہوں نے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ساتھ چلنا ہوتا ہے کیونکہ انجان لوگ بدگمانی پھیلانے کا سبب نہیں بنتے ۔
کاروباری زندگی کے علاوہ گھریلو زندگی میں بھی اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ بدگمان کرنے والی اس بری عادت کا مشاہدہ مرد اور عورت دونوں میں کیا گیا ہے۔ اس برائی کا سامنا عام طور پر نئے آنے والے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے کیونکہ صرف نئے لوگوں کوہی آسانی سے دبایا جا سکتا۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں بدگمانی پھیلائی جاتی ہے وہ ایک باکردار شخص ہوتا ہے کیونکہ بدکردار شخص کے لئے بدگمانی پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس رویے کی وجہ سے معاشرے میں فساد اور بے چینی جیسی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔معاشرے سے اس برائی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے انسان win-win سٹریٹجی اپنائے۔ اسکا مطلب ہے کہ اپنا فائدہ سوچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچا جائے اور اگر بھلا نہ بھی سوچیں تو کم از کم نقصان ہرگز نہ سوچیں۔ اپنی بے بنیاد سوچوں پر قابو پانا سیکھیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پرہیز کریں۔