کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لائیں

آرمی چیف محترم قمر جاویدباجوہ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انھیں خبردار کیا ہے کہ داعش کا اصل ہدف تعلیم یافتہ نوجوان ہیں،لہٰذا اوہ ملک میں موجود تمام انتہا پسند تنظیموں سے بچیں،تاکہ یہ تنظیمیں انھیں داعش کے چنگل میں نہ پھنسا سکیں۔انھوں نے ہرپاکستانی کو رد الفسادکا سپاہی قرار دیتے ہوئے ملک سے فساد کے قلع قمع میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی بھی ترغیب دی ہے۔

داعش (ISIS) یا” دولت اسلامیہ”عراق اور شام میں ایک فعال عسکریت پسند گروپ ہے ۔داعش کی قائم کردہ ریاست کے سربراہ کانام پروفیسر ابوبکر البغدادی ہے،جس کے بارے میں عالمی ذرایع ابلاغ سے ملنے والی معلومات کا لبّ لباب یہ ہے کہ :ابراہیم بن عواد ابراہیم السامرائی ،جو ابو بکر البغدادی کے نام سے معروف ہے، خود کو امیر المؤمنین بھی کہلاتا ہے۔اس کے سخت نظریات اور اسلام کو بطور سخت دین متعارف کرانے کے سبب اسلامی دنیا میں میں اس پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔سعودی عرب کے مفتی اعظم اور کئی علما ئے کرام بغدادی کو خارجی قرار دے چکے ہیں،تجزیہ نگار اسے موساد کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں،ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کے مطابق بغدادی اصل میں اسرائیلی شہری ہے۔

”القاعدہ ”کے اس منحرف گروپ کو عالم اسلام کے علمائے کرام نے روزِ اول سے ہی مغرب واسرائیل کا ایجنٹ،اسلام کے روشن چہرے پر کلنک کا ٹیکا اور اسلام کے فلسفہ ٔ رواداری کے خلاف عالمی سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔اس گروپ کی کارروائیوں کی کبھی تایید کی ہے اور نہ ہی اس کے نظریات کی حمایت،بلکہ اس کے اقدامات کو سراسر اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسلام کے فلسفۂ جہاد کے خلاف ہونے کی وجہ سے یک سر ویک قلم مسترد کردیا ہے۔اس حوالے سے عالم اسلام کے تمام دینی راہ نما یک زبان ہیں اور کسی کا کوئی اختلاف نہیں ،اگر کسی قدآور علمی شخصیت نے اپنی ذاتی تحقیق یا کسی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر سادہ لوحی کی بنا پر داعش کی کسی بھی پیرایے میں تحسین وتایید کی بھی ہے،تو علمائے کرام نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔مقام ِاطمینان ہے کہ داعش کے ایک فتنہ ہونے پر پاکستان کے تمام مسالک ومکاتب فکر کے علماوزعمابھی متحد ومتفق ہیں۔

افواج پاکستان اس ملک کی بقا کی ضامن ہیں۔فوج نے جنرل راحیل شریف کے دور میں ملک میں قیام امن ،مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف جس تندہی سے سول ادار وں کا تعاون کیا ہے،اس کی وجہ سے اہل وطن فوج ہی کو اب اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔یہ فوج ہی تھی جس کی وجہ سے برسہا برس بعد پہلی مرتبہ جنرل راحیل شریف کے دور میں بلوچستان اور فاٹا میں جشن آزادی منایا گیا،قومی پرچم لہرائے گئے اور ملک سے اپنی محبت وعقیدت اور وابستگی کا اظہار کرنے کی وہاں کے مکینوں کو جراء ت ہوئی تھی،یہی فوج تھی جس کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی سے فساد کا قلع قمع ہوا،موت کے سوداگروں سے عوام کی جان چھوٹی،بھتااور پرچی مافیا جس نے تاجروں اور سفید پوشوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا ،کاخاتمہ ہوا۔اب بھی اہل وطن ملک میں فساد کے خاتمے اور امن کی بحالی کو فوج ہی کا کا رنامہ سمجھتے ہیں اور امیدبھری نگاہوں سے فوج ہی کی طرف دیکھتے ہیں،ورنہ سیاست دانوں سے اب عوام کو کوئی حسن ظن نہیں رہا۔یہ تو وہ ٹولہ ہے جس کو ملکی مفاد بھی اسی وقت یاد آتا ہے جب اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں،ووٹ کے تقدس کی بات بھی اسی وقت کی جاتی ہے جب اپنا مینڈیٹ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے،احتساب کی بات بھی اسی وقت کی جاتی ہے جب احتساب کا رخ صرف سیاسی مخالفین کی طرف موڑا جاچکا ہو،ورنہ یہی احتسابی ادارے دشمن نظر آتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے برعکس جنرل راحیل شریف اور اب ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے پیش رو جرنیلوں سے اس حوالے سے منفرد ہیں ،کہ ان کی نظریں اقتدار پر نہیں ہیں،وہ اداروں کے معاملات میں مداخلت کے بھی روادار نہیں اور ذاتیات کی بنیاد پر ملک کا پہیہ جام بھی نہیں کرنا چاہتے،یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی وقعت میں آئے روزاضافہ ہورہا ہے۔ قیام امن کے حوالے سے ان کے سنہری کارناموں میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے ملک کی ایک ایسی جماعت کو سیاسی پلیٹ فارم پر آنے پر تیار کرلیا ہے، جواپنی رفاہی،فلاحی وتعلیمی خدمات کے باوجود و کبھی کشمیر کے ریگزاروں میں برسر پیکار نظرآتی تھی اور کبھی افغانستان کے مرغزاروں میں ،وہ ملی مسلم لیگ کا نام اختیار کرکے سیاسی میدان کو اپنی جدوجہد کامحور بنائے گی،اس کاعسکریت پسندانہ پس منظردیکھتے ہوئے بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔

جنرل باجوہ نے بروقت نوجوانوں کو مستقبل کے ایک بڑے خطرے سے خبردار کیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں داعش کے حوالے سے اب تک جو بھی شواہد ملے ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی طبقے کے بجائے دنیاوی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا رجحان اس شدت پسند جماعت کی طرف زیادہ پایا جاتا ہے۔انھوں نے وطن عزیز کے نوجوانوں کو انتہا پسندنظریات رکھنے والی عسکریت وشدت پسند تنظیموں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ان کی یہ تلقین بجا ہے۔
ہم یہاں ان کی توجہ ایک اور امر کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت سے بخوبی واقف ہیں ،جماعت الدعوة کی طرح ان ان کے تحفظات کا ازالہ کریں،ان کو بھی قومی دھارے میں آنے کا پابند کریں،اس کے لیے مواقع فراہم کریں،ان کے ووٹ کے حق کو تسلیم کروائیں۔

بعض جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ قومی دھارے کاحصہ بنناچاہتی ہیں،لیکن بڑی سیاسی جماعتیں انھیں اپنی راہ کا روڑا سمجھتے ہوئے مختلف ہتھکنڈوں سے ان کاراستا روکتی ہیں،حال ہی میں بازیاب ہونے والے مولانا معاویہ اعظم کی جبری گم شدگی کو بھی سیاسی مخاصمت سے جوڑا جارہا ہے،کہ اپنی شکست محسوس کرتے ہوئے” ن” لیگی امیدوار نے انھیں غائب کرادیا تھا،ایک کالعدم جماعت کے سربراہ کا مقدمہ اب بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے،جن کا دعویٰ ہے کہ زیادہ ووٹ ہونے کے باوجودانھیںاسمبلی میں نہیں جانے دیا گیا،ایسی شکایات کا ازالہ کیے بغیر یہ جماعتیں ووٹ کا راستا اور سیاسی جدوجہد کا میدان بھلا کس طرح اختیار کرسکتی ہیں؟لہٰذاان کی شکایات کاازالہ کیا جانا ضروری ہے،بایں ہمہ جوجماعتیں اس کے لیے آمادہ نہ ہوں، ان کا ناطقہ بند کیا جائے۔یہ قوم اب مزید زخم سہنے کی متحمل نہیں۔شایداس طرح ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی جو آگ دو عشروں سے لگی ہوئی ہے،وہ بھی سرد ہوکرامن وآشتی اور پیار ومحبت کے پھول کھل اٹھیں!

اللہ کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل ِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے