آزاد کشمیر کا پریشر ککر

راولاکوٹ سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ مجادلہ کو ضلعی انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دیکر اس کی اشاعت روک دی اور دفتر کو سیل کر دیا ۔ مقامی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں اخبار کے غیر قانونی ہونے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی تاہم میڈیا اور سول سوسائٹی کے ایک حصے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس اخبار کو ایک” متنازعہ” رپورٹ شائع کرنے کے باعث بند کیا گیا۔ برطانیہ میں مقیم ایک کشمیری نژاد صحافی کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے 70 فیصد شہری کشمیر کی علیحدگی(خودمختاری) کے حامی ہیں۔

راولاکوٹ سے ہی شائع ہونے والے ایک اور اخبار ر وزنامہ دھرتی کے مطابق بند ہونے والے اخبار کو اشاعت کا کوئی باقاعدہ اجازت نامہ(ڈیکلیریشن) جاری نہیں کیا گیا تھا اور اس سے قبل بھی اس اخبار کی اشاعت کو”متنازعہ اشاعتی پالیسی” کی بناء پر بند کیا جاتا رہا تاہم ہر بار اشاعت کی مشروط اجازت مل جاتی تھی۔
اخبار میں کشمیر کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مندرجات کی سند، اس کی تیاری کے طریقہ کار، پوچھے گئےسوالات کی جہتیں،نمونہ بندی اور جواب دہندگان کی حیثیت و جوازیت اپنی جگہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے تاہم اس رپورٹ کا خلاصہ بطور خبر شائع کرنے کی بناء پر اخبار کا بند کیا جانا بہرطور افسوسنا ک ہے۔

باوجود یہ کہ اخبار کی اشاعت کا اجازت نامہ مشروط تھا، اسے بند کرنے کے لئے جس موقع کا انتخاب کیا گیا وہ کسی تنازعہ کو جنم دے سکتا ہے ۔ یہ تنازعہ کشمیری عوام اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کے دلوں میں یہاں کے گورننس کے نظام، پاکستان کے انتظامی اور سیکورٹی اداروں کی بے جا مداخلت اور اور سول سوسائٹی پر غیر اعلانیہ پابندیوں کے حوالے سے جو تاثر پایا جاتا ہے اس کو مزید تقویت دے گا۔

اس سے قبل گذشتہ سال بھی کشمیر سے متعلق سولہ کتابوں پر پابندی عائد کی گئی تھی جن میں مقبول بٹ شہید کی دو تصانیف بھی شامل ہیں۔ جبکہ کشمیری مصنف و محقق سعید اسعد کو ان کی "متنازعہ” تصانیف کی بناء پر سرکاری نوکری سے برطرف کیا گیا۔

آزاد کشمیر میں سول سوسائٹی اور میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندیوں اور سنسرشپ کا سلسلہ کافی پرانا ہے تاہم گذشتہ چند سالوں کے دوران، خصوصاً نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد، اس میں مزید شدت آئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا وجود تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے پرنٹ میڈیا نے بھی ایک سیلف سنسرشپ اوڑھ رکھی ہے ۔ سیلف سنسر شپ کی وجوہات ایک اوپن سیکرٹ ہیں اور ان کو کبھی زیر بحث لایا گیا اور نہ ہی صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔

اس گھٹن زدہ ماحول کے باعث اظہار رائے کے خلاء کو کسی حد تک سوشل میڈیا نے پر کیا مگر اس عمل میں برسوں کی فرسٹریشن کا اظہار نوجوانوں نے بسا اوقات ریاستی اداروں کو گال گلوچ اور ب سیاسی جماعتوں پر بے سرو پا الزامات اور ذاتیات کو زیر بحث لا کر کیا۔ تاہم سنجیدہ فکر طبقہ کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کےلئےجو موقع سوشل میڈیا نے فراہم کیا وہ شائد یہاں کاروائتی میڈیا کبھی بھی نہ کر پاتا۔

گذشتہ دو سالوں سے ریاست میں سول سوسائٹی کی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی ہے اور بحث و مباحثے، مکالمے اور متبادل بیانیہ کی تشکیل، تشریح و اظہار کے لئے جو مواقع سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور ادارے مہیا کرتے تھے وہ بھی ختم کر دئے گئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی ریاست کے بیانیہ سے ہٹ کر کسی بھی قسم کے بحث و مباحثے کی اجازت نہیں ہے،خاص طور پر جب معاملہ تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہو۔

اب اطلاع ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جن میں متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، پولیس اورخفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہیں- یہ کمیٹیاں سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے علاوہ اس امرکو بھی یقینی بنائیں گی "قومی مفاد” کے خلاف کسی قسم کا بحث و مباحثہ ہو اور نہ ہی کسی قسم کا مواد شیئر کیا جائے۔

پاکستان کے چاروںصوبوں اور گلگت بلتستان میں شائد اس طرح کی صورتحال نہ ہو مگر آزاد کشمیر میں اس گھٹن میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ارباب اختیار مسلسل دباو بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا کے دیگر معاشروں اور ان کے خیالات و نظریات اور تعلقات میں وسعت پیدا ہو رہی ہے مگر ہم اپنے آپ کو اوراپنی نوجوان نسل کو خود کشید دائروں کے اندر محدود کرنے میں مصروف ہیں- یہ صورتحال آزاد کشمیر کو ایک پریشر ککر میں تبدیل کرتی جا رہی ہے۔ جس کا دھماکہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔

سماجی ماحول میں اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کہ نوجوانوں کو اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع دیا جائے، ان کو سننے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور انہیں دلائل کے ساتھ قائل کیا جائےنہ کہ طاقت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی جائے کیونکہ طاقت کے ذریعے کئے گئے ہر عمل کا ایک ردعمل ہو تا ہے ، اس کے برابر مگر مخالف سمت میں۔ یہ قانون قدرت بھی ہے اور سائنس کا اصول بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے