وطن عزیز پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پے درپے دھمکیاں مل رہی ہیں تو دوسری طرف اندرونی طور پر سیاسی خلفشار ، آج کی نشست میںسابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ ”انقلابی نعروں”کے پس منظر و پیش منظر پر چند گزارشات پیش کروں گا۔
میاں صاحب نے اپنے دور ِ وزارت میں اصلاح اور انقلاب کے تمام راستے مسدود رکھے مگر اچانک اب اسے انقلاب کیسے یاد آیا؟کیا یہ انقلاب آئین سے اسلامی شقوں کا خاتمہ کرنے کا پیش خیمہ تو نہیں؟ ماضی میں بھی ہم میاں صاحب کے ڈسے ہوئے ہیں، پوری قوم کو معلوم ہے جب ہم نے سینیٹ سے شریعت بل پاس کراکر ملک میں انقلابی راستہ کھول دیا جس کا مقصد پاکستان کی سیاسی، عدالتی اور معاشی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈالنا تھا۔اس بل کو پاس کرانے کیلئے سالہا سال طویل جدوجہد کی گئی، ملک بھر میں گلی گلی ،کوچے کوچے ،نگر نگر،سیمینارز، کانفرنس، لانگ مارچ، ریلیاں اور جلسے ہوتے رہے۔استصواب رائے کیلئے لاکھوں محضرنامے جمع کیے گئے۔ پارلیمنٹ کے سامنے حضرت والد مولانا عبدالحق مرحوم کی قیادت میں لاکھوں افراد نے دھرنا دیا۔بالآخر لازوال جدوجہد کے بعدیہ شریعت بل سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور کرایا۔جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ قرآن و سنت کو ہر دستور اور قانون پر بالا دستی ہوگی۔اللہ تعالیٰ حاکمیت مطلق کو ساورنٹی (Sovereignty)حاصل ہو گی، ملک کے ہر اہم ادارے کو اس بنیادی اصول کے ماتحت کرنا ہوگا۔ مگر جب یہ پاس کردہ بل اس وقت کے قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا گیاتو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس بل کو ایک غیر اسلامی شق کے ساتھ مشروط کر دیا کہ”بل اس شرط پر نافذ ہو گا کہ ملک کا موجودہ سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام متاثر نہ ہو”۔
اس طرح بڑی ڈھٹائی سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا راستہ روکا گیا،اس اقدام سے میاں صاحب کے دین و شریعت کے معاملے میں بے حسی بلکہ منافقانہ رویہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، ان کا بس چلے تو وہ دستور کی دیگر اہم اسلامی ترامیم پر بھی چھری پھیر دیں گے ۔ ان اسلامی دفعات خصوصاً توہین رسالت ایکٹ ،امتناع قادیانیت آرڈیننس پر مغربی اقوام یہودی اور قادیانی ملک کی سیکولر و لبرل لابیاں سیخ پا ہوکر مسلسل ان کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہیں۔اس معاملے میں ان کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سابق صدر امریکہ باراک اوبامہ نے اپنے خصوصی مسلمان ایلچی ومشیر مسٹر رشاد حسین کی قیادت میں ایک وفد بھیجا جو مجھ سے بھی ملا۔ دو گھنٹے کی مجلس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسٹر اوبامہ ان دو دفعات (امتناع قادیانیت اور توہین رسالت ) کو آئین سے ختم کرانے کے خواہشمند ہیں۔
آئین کے دفعہ 62,63جس کی وجہ سے میاں صاحب برطرف کیے گئے آٹھویں ترمیم کا حصہ ہے۔مجھے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اس حقیقت کے اظہار پر فخر ہے کہ ان اسلامی دفعات اور ترمیمات کرانے میں جنرل ضیاء الحق کی وفاقی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں میری طویل جدوجہد اور صدر ضیاء الحق کو راضی کر کے اسے آٹھویں ترمیم کا حصہ بنانے میں میرا اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔میں خود ان تمام اسلامی دفعات کی جدوجہد کا حصہ رہا بلکہ 1973ء کے دستور کی منظوری سے لے کر اب تک بیس پچیس سالوں کی محنتیں شامل ہیں۔
میرے خیال میں میاں نواز شریف یا ان کے ہمنوا صرف دفعہ 62,63ختم کرنے کے درپے نہیں بلکہ وہ آٹھویں ترمیم میں شامل تمام دفعات کو ختم کرنے کی شروعات کر رہے ہیں۔عمارت کی بنیادوں کی ایک اینٹ سرکا دینے کے بعد یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ اسلامی تشخص کے علاوہ ملک کے وفاقی استحکام ،علاقائی لسانی اور علیحدہ پسند قوتوں کو مذموم عزائم کی تکمیل کا دروازہ کھل جائے گا۔ کرپٹ حکمران اور عناصر احتساب کے راستے سپریم کورٹ وغیرہ بند کرکے من مانی کرنے میں آزاد ہوجائیں گے ۔
وہ اہم دفعات کونسے ہیں جن کو میاں صاحب کے نام نہاد ”انقلاب” سے خطرہ ہے۔ بطور مثال چند دفعات ملاحظہ فرمائیں:
(١) آرٹیکل 2Aکے تحت قرار داد مقاصد میں بیان کردہ اُصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ بنایا گیا۔جو اب آئین کی اساس اور روح ہے ۔
(٢) آرٹیکل 31 اسلامی طریقہ زندگی کے تحت زکوٰة اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کے اہتمام کے ساتھ ”عشر ”کا اضافہ کیا گیا۔
(٣) آرٹیکل 62 مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکنیت کیلئے اہلیت کے تحت نا اہلی کے شرائط میںبرے کردار احکام اسلام سے انحراف ، اسلامی تعلیمات سے لا علمی، فاسق ،غیر ایماندارجھوٹی گواہی دینے والا،ملک کی سا لمیت کے خلاف کام کرنے جیسے شرائط کی ترمیم کرائی گئیں جبکہ کسی اہم منصب کے لئے دینی اہلیت کا لحاظ حکم الہٰی ہے ۔اسی طرح اس شخص نے ”پاکستان بننے کے بعد ملک کی سا لمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو” کو بطور خاص شامل کیا گیا۔
(٤) آرٹیکل ”63 ” میں نااہلی کی شرائط میں پاکستان کے اقتدار اعلیٰ سا لمیت یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا جو پاکستان کے مسلح افواج یا عدلیہ کو بد نام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو۔ اسی طرح اخلاقی پستی وغیرہ میں ملوث ہو جیسی ترامیم کی گئی۔
(٥) آرٹیکل 113میںقومی اسمبلی کی طرح صوبائی اسمبلی کے رکنیت کیلئے بھی اہلیت کے حوالے سے آرٹیکل نمبر 62اور 63کا اضافہ کیا گیا،جوکہ تمام منتخب نمائندوں کے لئے ایک مناسب معیار ہے۔
(٦) آرٹیکل 203میں وفاقی شرعی عدالت کے قیام جس میں 8مسلمان جج زیادہ سے زیادہ تین دینی علماء اور اسلامی قوانین کے ماہرین کی شرائط ڈال دی گئیں ۔اسی طرح آرٹیکل 203کے تحت عدالت منافی اسلام قوانین کا جائزہ لے گی اوراسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے گی۔
(٧) آرٹیکل 239کے تحت ایوان بالا ”سینیٹ” اور ایوان زیریں”قومی اسمبلی” میں سے کوئی بھی دو تہائی اکثریت سے بل پاس کرنے کا مجاز ہے،پھر اُسے دوسرے ایوان میں بھیج سکتا ہے ۔
(٨) آرٹیکل 255میں دستور کے مطابق حلف لینے کیلئے استعمال ہونے والی زبان کے حوالے سے ”ترجیحاً اُردو ”کا اضافہ کیا گیا۔
(٩) آرٹیکل 42 میں عہدوں کے حلف لینے کے بعد آخر میں ”اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے ۔” کا اضافہ کیا جائے۔
(١٠) اسی طرح آرٹیکل 270الف(2)کے تحت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی آرڈیننس (نمبر ٣٠ مجریہ ١٩٨٥) جاری ہوا ۔اسی طرح محتسب
اعلیٰ کے قیام کا آرڈیننس
اس کے علاوہ اور کئی آرڈیننس جاری کر دیئے گئے مثلاً
(١١) آئین کے آرٹیکل 106میں جداگانہ انتخابات کی بنیاد پر براہ راست بعد آزاد ووٹ کے ذریعہ انتخاب کی ترمیم کی گئی ۔
(١٢) حدود و تعزیرات آرڈیننس ۔جرم زنا 1985 ، جرم قذف مجریہ 1985،امتناع منشیات 1985ئ
(١٣) قرآن کریم کی بے حرمتی اورتوہین کے بارہ میں :
٭ 1982ء دفعہ 295-Bکے تحت جو کوئی بھی عمداً قرآن حکیم کے کسی نسخے کی بے حرمتی کرتا ہے اسے نقصان پہنچاتا ہے ،اس کی توہین کرتا ہے یا اس کے کسی حصے کی توہین کرتا ہے، یا اسے تحقیر آمیز طریقے سے استعمال کرتا ہے ،یا اسے کسی غیر قانونی مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے ،اسے شخص کو عمر بھر قید کی سزا دی جائے گی۔
(١٤) قادیانیت آرڈیننس مجریہ 1982ء :
لاہوری احمدی گروپ امتناع و سزا آرڈیننسxxمجریہ 1984ء کے تحت تین دفعات وضع کی گئیں اور ایک آرڈیننس کے ذریعے نافذ کی گئیں۔
مقدس شخصیات کی توہین پر سزا کے لئے :
٭ دفعہ 298-A کے تحت تقدس مآب (ازواج مطہرات، اہل بیت کرام ، خلفائے راشدین،صحابہ کرام وغیرہ جیسی شخصیات کیلئے توہین آمیز الفاظ یا رائے وغیرہ کے استعمال پر تین سال تک کی قید کی سزا یا جرمانہ یا قید و جرمانہ دونوں ہوں گی)
تمام مقدس اصطلاحات کے بارے میں :
٭ 298-B ان القابات و خطابات اور توصیف وغیرہ کے غلط استعمال کے حوالے سے ہیں جو تقدس مآب شخصیات اور مقامات کے لئے مخصوص ہوں۔مثلاً قادیانی یا لاہوری گروپ آنحضرت ۖ کے کسی خلیفہ یا صحابی کے کسی اور شخص کو امیر المومنین ، خلیفة المسلمین صحابی ، اہل بیت یا اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دیتا ہے ،وہ تین سال تک قید کی سزا اور جرمانے کے مستوجب ہوگا
قادیانی گروپ کے بارے میں :
٭ دفعہ 298-C بھی قادیانی گروپ وغیرہ کا کوئی فرد جو اپنے آپ کو مسلمان کہلائے یا اپنے مذہب کو اسلام کا نام دیتا ہے ،یا تصاویر اور بتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے وہ تین سال قید اور جرمانے کا مستوجب ہے۔
تحفظ ناموس رسالت کے لئے :
(١٥) قانون فوجداری (ترمیم) ایکٹ III مجریہ 1985
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اتفاق رائے سے یہ قانون فوجداری ایکٹ نافذ کردیا گیا۔اس سے مذہبی اعتقادات ،عبادت گاہوں ‘آنحضرت ۖکے صحابہ کرام اور امہات المومنین کو جو تحفظ دیا گیا تھا اس میں توسیع کردی گئی تاکہ اس تقدس مآب شخصیت کی ذات گرامی اس میں شامل ہوجائے جن کے حوالے سے ان شخصیتوں کو ادب و احترام دیا جاتا ہے۔چنانچہ 295-C کا اضافہ کیا گیا ۔
اسی طرح اگست ١٩٩٢ء میں توہین رسالت کے مجرم کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295Cمیں عمر قید کی بجائے سزائے موت مقرر کی گئی۔
” 295-Cکے مطابق جوکوئی بھی آنحضرت ۖ کے مقدس نام کی توہین زبانی و تحریری الفاظ میں کرتا ہے یا نظر آنے والی تصاویر ،یا بتوں کے ذریعے ،یا بہتان تراشی ،طعن و تعریض کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ حضور ۖ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ سزائے موت کا مستوجب ہوگا یا اُسے عمر قید کی سزا ہوگی او راسے جرمانہ بھی کیا جائے گا۔”
بعدازاں 2جون1992کو قومی اسمبلی نے شریعت کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ایک قرارداد پاس کی کہ آنحضرت ۖ کی توہین کرنے والے جرم کی سزا صرف سزائے موت ہونی چاہیے ۔سینٹ نے بھی اس کی تائید کی۔ 8جولائی 1992ء کو ایک ترمیمی بل پاس کیا گیا کہ اس جرم کی سزا صرف سزائے موت ہونی چاہیے۔دونوں ایوانوں کا متفقہ فیصلہ پاکستانی باشندوں کے اجتماعی ضمیر کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی بیشتر ایسے آئینی اور دستوری ترامیم ہیں جس میں راقم سمیت دیگر مذہبی جماعتوں اور محب وطن دیندار اراکین پارلیمنٹ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس تحریر کا مقصد پاکستان کے غیرت مند عوام ، علمائے کرام ،دانشوروں وکلاء اور اینکرصحافیوں ،مدیران جرائد ،مذہبی جماعتوں اور اسلامی جذبے سے سرشار سیاست دانوں کو متنبہ کرنا ہے۔کہ میاں نواز شریف صاحب ”انقلاب ” کی آڑ میں اگر مذکورہ اسلامی دفعات یا دیگر ترامیم کو ختم کرنے کی جسارت کریں گے یا اس کا دروازہ کھول دیں گے تو پاکستانی قوم اور تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرے گی لہٰذا خواب غفلت سے بیدار ہو کر چوکنا رہنا ہوگا اور میری تمام مذہبی اور محب وطن سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس اسلامی آئین کو بچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔
اس سلسلہ میں تمام مذکورہ طبقات کو اعتماد میں لینے کے لئے ہماری بھرپور کوششیں جاری ہیں اور پرسوں 28 اگست کوتحفظ آئین پاکستان کے نام پر تمام دینی اور سیاسی پارٹیوں کا اے پی سی اس ضمن میں منعقد ہورہی ہے ۔