قربانی کی شرعی حیثیت ۔ چندتوضیحات

 

عید الاضحیٰ کی قربانی کے حوالے سے ایک فقہی بحث تو وجوب یا عدم وجوب کی ہے۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں مجتہدین کے اختلاف کو یوں بیان کیا ہے کہ

[highlight txtcolor=”#232cdb”]
إن الضحية ليست بواجبة ولكنها سنّة ومعروف. وقال عكرمة: كان ٱبن عباس يبعثني يوم الأضحى بدرهمين أشتري له لحماً، ويقول: من لقيتَ فقل هذه أضحية ٱبن عباس. قال أبو عمر: ومحمل هذا وما روي عن أبي بكر وعمر أنهما لا يضحيان عند أهل العلم؛ لئلا يعتقد في المواظبة عليها أنها واجبة فرض، وكانوا أئمة يقتدي بهم من بعدهم ممن ينظر في دينه إليهم؛ لأنهم الواسطة بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين أمته، فساغ لهم من الاجتهاد في ذلك ما لا يسوغ اليوم لغيرهم. وقد حكى الطحاوي في مختصره: وقال أبو حنيفة: الأضحية واجبة على المقيمين الواجدين من أهل الأمصار، ولا تجب على المسافر. قال: ويجب على الرجل من الأضحية على ولده الصغير مثل الذي يجب عليه عن نفسه. وخالفه أبو يوسف ومحمد فقالا: ليست بواجبة ولكنها سنة غير مرخص لمن وجد السبيل إليها في تركها. قال: وبه نأخذ. قال أبو عمر: وهذا قول مالك؛ قال: لا ينبغي لأحد تركها مسافراً كان أو مقيماً، فإن تركها فبئس ما صنع إلا أن يكون له عذر إلا الحاج بمنىً. وقال الإمام الشافعي: هي سنة على جميع الناس وعلى الحاج بمنىً وليست بواجبة. وقد ٱحتج من أوجبها بأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أبا بُرْدة بن نِيَار أن يعيد ضحية أخرى؛ لأن ما لم يكن فرضاً لا يؤمر فيه بالإعادة. ٱحتج آخرون بحديث أمّ سلمة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ” إذا دخل العشر وأراد أحدكم أن يضحي ” قالوا: فلو كان ذلك واجباً لم يجعل ذلك إلى إرادة المضحِّي. وهو قول أبي بكر وعمر وأبي مسعود البدريّ وبلال. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات)[/highlight]

یعنی ایک قول یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں، بلکہ سنت ہے۔ چنانچہ ابن عباس عید کے دن عکرمہ سے کہتے تھے کہ دو درہم کا گوشت خرید کر لاو اور جو لوگ ملیں، ان سے کہو کہ یہ ابن عباس کی قربانی ہے۔ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی قربانی نہیں کرتے تھے جس کا محمل اہل علم کے نزدیک یہی ہے کہ ان حضرات کے پابندی سے قربانی کرنے سے کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ واجب ہے۔دوسرا قول امام ابوحنیفہ کا ہے جو اسے واجب کہتے ہیں، جبکہ امام ابو یوسف اور محمد کے نزدیک اس کا درجہ واجب سے کسی قدر کم یعنی سنت موکدہ ہے جسے ترک کرنا درست نہیں۔ یہی امام مالک کا قول ہے۔امام شافعی قربانی کو صرف سنت قرار دیتے ہیں، واجب نہیں سمجھتے۔

واجب قرار دینے والوں کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبردہ سے، جنھوں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تھی، فرمایا کہ وہ نماز کے بعد دوبارہ قربانی کریں۔ اگر یہ واجب نہ ہوتی تو اس کے اعادہ کا حکم نہ دیا جاتا۔

واجب قرار نہ دینے والوں کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عشرہ ذو الحجہ داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو اپنے ناخن اور بال نہ تراشے۔ اگر یہ واجب ہوتی تو آپ اسے قربانی کرنے والے کے ارادے پر منحصر قرار نہ دیتے۔

اس بحث کے حوالے سے راقم الحروف اپنا نقطہ نظر ایک تحریر میں تفصیلاً‌ واضح کر چکا ہے جو آئی بی سی اردو پر شائع ہو چکی ہے۔

دوسرا فقہی اختلاف یہ ہے کہ آیا قربانی کے جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنا بہتر ہے یا اس رقم کو فقرا اور ضرورت مندوں پر صدقہ کر دینا۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں فقہاء کے اختلاف کو یوں واضح کیا ہے۔

[highlight txtcolor=”#232cdb”]واختلفوا أيهما أفضل: الأضحية أو الصدقة بثمنها. فقال مالك وأصحابه: الضحية أفضل إلا بمنىً؛ لأنه ليس موضع الأضحية؛ حكاه أبو عمر. وقال ابن المنذر: روينا عن بلال أنه قال: ما أبالي ألا أضحي إلا بديك ولأن أضعه في يتيم قد تَرِب فيه ـ هكذا قال المحدث ـ أحب إليّ من أن أضحي به. وهذا قول الشعبي إن الصدقة أفضل. وبه قال مالك وأبو ثور. وفيه قول ثانٍ: إن الضحية أفضل؛ هذا قول ربيعة وأبي الزناد. وبه قال أصحاب الرأي. زاد أبو عمر وأحمد بن حنبل قالوا: الضحية أفضل من الصدقة؛ لأن الضحية سنة مؤكدة كصلاة العيد. ومعلوم أن صلاة العيد أفضل من سائر النوافل. وكذلك صلوات السنن أفضل من التطوّع كله. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات)[/highlight]

یعنی قربانی کرنے یا قیمت کا صدقہ کرنے کی افضلیت کے متعلق امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا موقف یہ ہے کہ قربانی کرنا رقم کا صدقہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ قربانی کرنا عید کی نماز طرح سنت موکدہ ہے جبکہ صدقہ کرنا نفل عبادت ہے، اور معلوم ہے کہ عید کی نماز، باقی نوافل کے مقابلے میں افضل ہے۔ تاہم سیدنا بلال، امام شعبی، امام مالک اور امام ابو ثور سے یہ منقول ہے کہ انھوں نے صدقہ کرنے کو افضل قرار دیا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک مرغ کی قربانی کو بھی کافی سمجھتا ہوں اور اس کو ذبح کرنے کے بجائے کسی خاک آلود یتیم بچے کو اس کی قیمت دے دینا مجھے زیادہ پسند ہے۔

اس ضمن میں شرعی دلائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے۔ پہلی شریعتوں میں قربانی کی ایک بڑی قسم ’’سوختنی قربانی‘‘ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص عنایت کرتے ہوئے گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے۔ محتاجوں کی مدد اور اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ تاہم چونکہ یہ واجب نہیں ہے، اس لیے معاشرے کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ان دنوں میں قربانی کی رسم کی ادائیگی کو ترجیح دے یا صدقہ وخیرات کرنے کو۔ اگر اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے آدمی دونوں کا تحمل کر سکتا ہو تو یہ بہت بہتر ہے، لیکن اگر ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ماحول کی ضروریات کے لحاظ سے جانور قربان کرنے یا اتنی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے