بریکس اتحاد کو بنے نوسال ہو گئے ہیں اور ابھی تک کل مملک کی تعداد صرف پانچ ہے۔آخر چین کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ اسے یہ اتحاد بنانا پڑا۔ اس کا واضح جواب تو یہ ہے کہ دنیا کیوں کہ یک قطبی نظام سے کثیر قطبی نظاموں کی طرف بڑھ رہی ہے اس لیے ہرخطے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنا کوئی مضبوط اتحاد ضرور قائم کرے جو اس کے مقاصد اور مفادات کا مکمل تحفظ کر سکتا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ اور ،ورلڈ بینک کی صورت میں ایسے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کا کردار صرف سرمایہ دار مملک کے مفاد تک محدود ہے۔چین کیوں کہ اینٹی سرمایہ دار ملک ہے اس لیے اس اتحاد میں چین کے لیے کوئی واضح گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی روس کے لیے ہے۔بھارت میں سرمایہ داری اور اشتراکیت پر مبنی ملا جْلا نظام ہے لیکن کانگریسی ذہنیت سرمایا داری کی طرف کھلا میلان نہیں رکھتی اس لیے بھارت نے اپنے قومی سرمایہ دار کو قومی دھارے میں لانے کے لیے متواتر اور مسلسل قانون سازی کی ہے۔یہ بات پاکستان کے لیے تشویش ناک ہے کہ بھارت تو بریکس کا ممبر ہے لیکن پاکستان کو اس کا ممبر نہیں بنایا گیا۔اس واقت بھارت کا گروتھ ریٹ چین سے بھی زیادہ نظر آتا ہے۔جو بھارت کی مضبوط معاشی پالیسیوں کی مستحکم دلیل ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ بریکس یقیناََ اپنے ممبران کی تعداد میں بھی اضافہ کرے گا بل کہ اس کے دائرہ کار میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔اصل میں یہ سرمایا درانہ نظام کے بین الاقوامی اداروں کے منفی کردار کی وجہ سے متبادل اداروں کے طور پر قائم کیے جانے والے اداروں کا ایک تسلسل ہے۔طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور یہ بات اب دلیل کی محتاج نہیں ہے۔اقوام عالم کے نام پر قائم کیے جانے والے اداروں پر عدم اعتماد کی پہلی شکل یورپی یونین کا قیام تھا۔لیکن وہ ایک سرمایا دار کی دوسرے سرمایا دار سے آزادی کی ایک صورت تھی جس میں انھیں کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ابھی یورپی ممالک نے بہت سے اقدامات کرنے ہیں لیکن وہ اقوام بہت سارے معاہدوں میں جکڑی ہوئی ہیں جو انھوں نے سامراج سے کر رکھے ہیں۔ان کی مارکیٹ بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے
اس وقت دنیاکی 25 بہترین ملٹی نیشنل کمپنیوں میں 19 کا مرکز امریکہ ہے تو خود اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یورپی یونین کہاں تک امریکہ بہادر کی دستبرد سے آزاد ہو گی۔اس کے مقابلے میں چین اور بھارت کا سرمایا دار ان کے قومی کنٹرول میں ہے۔روس میں نجی ملکیت کی تحدید کا قانون ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ایک رکاوٹ ہے۔لیکن اس سب کے باوجود اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو نتائج بہت مختلف نظر آتے ہیں۔اس سال امریکہ کا جی۔ڈی۔پی 18 ٹریلین ڈالر رہا اور اس کے مقابلے میں بریکس کا 37 ٹریلین ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔امریکی معیشت کا گروتھ ریٹ 2 فیصد کی شرع پر ہے اور بریکس مملک کی یہ شرع 5 فیصد ہے گویا امریکہ سے 150 فیصد زیادہ ہے۔امریکہ کا ڈیفنس بجٹ بریکس مملک کے مقابلے میں دگنا ہونے کے باوجود بھی جنگی صلاحیت صرف چین کے برابر بھی نہیں ہے جب کہ بریکس مملک کی مشترکہ جنگی صلاحیت امریکہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔اگربریکس کا سفر دیکھا جائے تو بہت تھوڑے وقت میں بڑی
کامیابیاں حاصل کی ہیں۔سی پیک کا منصوبہ بریکس کے لیے بھی ایک بریک تھرو کی حیثیت رکھتا ہے۔
چین دنیا کی ایک نئی سپر پاور بن رہاہے اور بہت سارے معاملات میں سپر پاور بن چکا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ بنانے کے بعد خلائی تحقیق میں چین کا کوئی مقابل نہیں رہا۔صرف اس ایک قدم سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحقیق کے شعبے میں چین ترقی کے کن مراحل میں ہے اور اس شعبے کے لیے اس نے کتنا بجٹ مختص کیا ہوا ہے۔چین نے اپنے تعلیمی نظام میں بڑی جدت پیدا کر لی ہے اور دنیا میں تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے مملک میں شامل ہو گیا ہے۔بھارت بھی ان ہی خطوط پر کام کر رہاہے۔چین اپنے اشتراکی نظام کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ویسی کشش نہیں رکھتا جیسی بھارت رکھتا ہے۔بھارت کے نظام میں ان کے لیے جاذبیت موجود ہے۔برازیل اور افریقی مملک کا اس اتحاد کا حصہ بننے کا واضح مطلب تو افریقہ و ایشیا کے وسائل پر قبضے سے امریکہ کو بے دخل کرنا ہے۔
یہ مملک اپنے دفاع کے لحاظ سے بھی محفوظ ہیں خاص کر کمزور مملک جہاں امریکہ فوجی کارویاں کر سکتا تھا یا ہے۔اب وہ مجبور ہے کے اس طرح کی کسی بھی کاروائی سے باز رہے۔ڈالر کے سب سے زیادہ ‘‘ریزورز’’چین کے پاس ہیں اور چین ان کو بطور ہتھیار کسی بھی وقت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ دور نظاموں کی جنگ کا ہے اور یہ جنگ معیشت کے میدان میں لڑی جائے گی۔ابھی تک تو اس معاملے میں چین کا جھنڈا سب سے اونچا نظر آتا ہے اور بینالاقوامی منظر نامے میں چین کے اتحاد سے قائم ہونے والے ادارے بوڑھے سامراج کو پے درپے شکست سے دوچار کر رہے ہیں۔چین اور بھارت کے درمیان جنگی تنازوں پر تبصرہ کرنے والے ماہرین کو شاید یہ خیال نہیں کہ جہاں جہاں کشیدگی موجود ہے وہ چین اور بھارت کے درمیان نہیں ہے بل کہ تیسری قوت یہ کشیدگی پیدا کر رہی ہے۔اور دونوں مملک اس کشیدگی کو ختم کرنے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔بھارت دو مرتبہ بریکس کی میزبانی کرچکا ہے۔
بریکس کے مقاصد میں صرف مالی اتحاد نہیں ہے بل کہ یہ اتحاد سیاسی ،معاشی ،معاشرتی اور دفاعی بنیادوں پر ہے۔یہ اتحاد ایک قسم کا فوجی اتحاد بھی ہے اور آگے چل کر یہ ایک مشترکہ فوج اور ایک مشترکہ سیاسی نظام بھی بنائیں گے۔ان مملک کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔
ان تمام معاملات میں اب دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔کیا ہم اپنی اسی پرانی ڈگر پر قائم رہیں گے اور ہماری سرحد سے ملے ہوئے خطے ترقی کی جن منازل کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ ہم نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہیں دیکھیں۔بھارت سے نظریاتی دشمنی ہم کب تک نبھاتے رہیں گے۔چین کی حقیقی ترقی سے آنکھیں بند کر کے دوستی کا راگ کہاں تک الاپا جا سکتا ہے۔
یہاں ضرورت ہے کہ ہم اپنے نظام میں موجود کجیوں کو دور کریں۔قیادت اپنی سمت درست کرے۔قومی دھانچے میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں اور قائم ہونے والے ان اتحادوں میں شامل ہو جائیں جہاں ہماری نہ صرف بقا ہے بلکہ مستحکم پاکستان کی ضمانت بھی ہے۔