گلگت بلتستان اس کرۂ ارضی پر اللہ تعالیٰ کی ایک حسین تخلیق ہے۔ اس علاقے میں برف پوش پہاڑوں، پُرشور دریاؤں، آبی گزرگاہوں، پھولوں اور پھلوں سے لدے درختوں کی وجہ سے ہرگام پر قدرتِ خداوندی کے جلوے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کےزیراہتمام گلگت کے لیے سفرکاآغاز فیصل مسجدسے11ستمبر کویونیورسٹی کے نائب صدر ڈاکٹرمحمدبشیرخان اور اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ کےسربراہ ڈاکٹرحسن الامین کی قیادت میں ہوا۔ وفدمیں ادارہ اوریونیورسٹی کے متعدد اساتذہ ، افسران اور کارکنان کے علاوہ گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے پروفیسرڈاکٹرمحمداکرم ورک اور تجزیہ نگاروصحافی سبوح سید بھی شامل تھے۔ ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ، کاغان سے ہوتے ہوئے وفد ناران پہنچا۔ وفدکے تمام ارکان جلدازجلد اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے بے تاب تھےتاہم رات ناران میں گزارناپڑی۔ اگلی صبح سفر کادوبارہ آغاز ہوا اب منزل کا اشتیاق اوربھی دیدنی ہوچکاتھا۔ راستے میں لولوسر جھیل اوربابوسرٹاپ کے مقامات آئے۔ بابوسر پر برف کانظارہ بھی مسحورکن تھا۔ چلاس میں ظہرانے کے بعد پھر سفرکا سلسلہ جاری رہا۔ جگلوٹ کے قریب تین پہاڑی سلسلوں۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا گلے ملنا بھی دیکھا۔ یوں تین تہذیبوں اورتین زمانوں کے بارے میں جوکچھ کتابوں میں پڑھ رکھاتھا وہ ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ گلگت میں پہلاپڑاؤ دینور میں قائم قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا کیمپس تھا۔ وہاں وفدکا ڈین علوم اجتماعیہ ڈاکٹرمحمدرمضان کی قیادت میں فقیدالمثال استقبال کیاگیا۔ اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ کا انتظامی وفد جواس مرکزی وفد سے دودن پہلے گلگت پہنچاتھا وہ بھی محمدیونس قاسمی کی قیادت میں وہاں موجود تھا۔
گلگت شہر اورمضافات کا مطالعاتی دورہ پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ اس سلسلے میں مہاتماگوتم بدھ کے مجسمے کے نقوش کے علاوہ دیگر تاریخی مقامات دیکھے گئے۔ 13ستمبر کو قراقرم یونیورسٹی میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ آئیے آپ کو براہ راست سیمینار میں لیے چلتے ہیں۔
[pullquote]قراقرم یونیورسٹی میں :[/pullquote]
‘‘معاشرے کی تشکیل نو میں عصری جامعات کا کردار ’’ کے موضوع پر اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اعلان کیا کہ علاقے کے سماجی، ثقافتی،اقتصادی اور دیگر مسائل کے ضمن میں رہنمائی کیلئے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو ایک تھنک ٹینک کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ معاشرے کی تشکیل نو میں جامعات کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے اور گلگت بلتستان حکومت نے اس کا بھر پور ادراک کر لیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیوں کا دور بدل چکا ہے اور اسلامی یونیورسٹی قابل تحسین ہے کہ اس نے وقت کے اس تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے اس موضوع کا انتخاب کیا اور اس کیلئے گلگت بلتستان کی سرزمین پر اس سیمینار کا انعقاد کیا۔ حافظ حفیظ الرحمن نے مزید کہا کہ جامعات کا کردار لوگوں کو نوکری پیشہ بنانا نہیں بلکہ ان کی خودی کو بلند کرنا اور ان کیلئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنا ہے ۔ حافظ حفیظ الرحمن نے اساتذہ کرام پر زور دیا کہ طلباء و طالبات کی کردار سازی بھی ان کا مشن ہونا چاہئے اور کسی بھی طالب علم کو اعلیٰ تعلیم محروم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ گلگت بلتستان کی پہلی خواتین یونیورسٹی بھی جلد قائم کر دی جائے گی تاکہ طالبات کیلئے تعلیم کی مزید سہولتیں بہم پہنچ جائیں۔ انہوں نے گلگت بلتستان کو مختلف مکاتبِ فکر،برادریوں اور لسانی گروہوں کا حسین گلدستہ قراردیا۔
وفاقی وزیرامورکشمیر چوہدری محمدبرجیس طاہر نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ وفاقی حکومت نے گلگت، بلتستان کوترقی دینے کاتہیہ کررکھاہےاور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجائے گا۔ انہوں نے اس سیمینار کے انعقاد پر اسلامی یونیورسٹی اورقراقرم یونیورسٹی کو مبارکباد دی۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی ا سلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے کہا کہ معاشرہ یونیورسٹیوں سے عملی کردار کا متقاضی ہے اگر معاشرہ ایک طالب علم پر ایک روپیہ خرچ کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہ طالب علم معاشرہ کو اس سے کئی گنا زیادہ لٹائے ۔ انہوں نے اساتذہ کے تربیتی کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں ملازمت کیلئے نہیں بلکہ ایک عظیم مشن کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں بد امنی اور بے چینی کا تدارک ہو سکے ۔ انہوں نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا بھر پور تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسی نوعیت کے سیمینارگلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بھی منعقد کئے جائیں گے ۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل احمد نے اس سیمینار کے انعقاد کیلئے قراقرم یونیورسٹی کے انتخاب پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا شکر یہ ادا کیا اورکہاکہ قراقرم یونیورسٹی کے دروازے اسلامی یونیورسٹی اوراس کے ذیلی اداروں کے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔
اسلامی یونیورسٹی کے قائم مقام صدر ڈاکٹر محمد بشیرخان نے اپنے خطاب میں کہا کہ معاشرتی تشکیل نو میں جامعات کا کردار حتمی نوعیت کا ہوتا ہے اور جو معاشرے اس وصف سے عاری ہوتے ہیں ان میں انتہا پسندی جنم لیتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گہری تفکیر کے ذریعے مسائل کا حل صرف جامعات ہی میں دریافت کیا جاسکتا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین نے معاشرے کی تشکیل میں جامعات کے چھ نکاتی کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ جس میں ثقافتی، عصری تقاضوں ، سائنسی انداز فکر اور معاشرے کے تمام طبقات کے مسائل کو سمجھتے ہوئے سنجیدہ گفتگو کو عام کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر حسن الامین نے مزید کہا کہ جامعات صرف عمارتوں کا نہیں بلکہ افکار نو کا مرکز بنیں تو قومیں سنور جاتی ہیں ۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈین علوم اجتماعیہ ڈاکٹر محمد رمضان ، اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سید مزمل حسین ، تجزیہ نگار سبوح سید ، دعوۃاکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناصرفرید،پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کی پروفیسر ڈاکٹر کوثر یاسین زئی ، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے پروفیسرمحمد اکرم ورک ، مسعود خٹک اور دیگر نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
[pullquote]آغاخان ترقیاتی مرکز کا دورہ:[/pullquote]
سیمینار کے بعد اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹرمحمدبشیرخان کی قیادت میں وفد نے گلگت میں قائم آغاخان ترقیاتی مرکزکا دورہ کیا۔ وفدمیں اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ کے سربراہ ڈاکٹرحسن الامین، ایڈیشنل ڈائریکٹرسیدمزمل حسین، تجزیہ نگارسبوح سید، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے پروفیسرمحمد اکرم ورک، اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ اصول الدین کے پروفیسر قیصرشہزاد، اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمداسماعیل اوردیگرافرادشامل تھے۔ پودوں اوردرختوں میں گھرے ہوئےآغاخان ترقیاتی مرکزپہنچنے پر وفد کا استقبال مرکز کے سربراہ ڈاکٹرمولادادنے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے وفدکوہز ہائی نس آغاخان کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے بتایاکہ آغاخان اسماعیلی برادری کے انچاسویں روحانی پیشوا ہیں۔ ان کے پیروکار دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کے علاقے میں خصوصاً ہنزہ میں ان کی وسیع ترآبادی ہے۔ اس کے علاوہ چترال اورپاکستان کے دیگرعلاقوں میں بھی اسماعیلی برادری کے لوگ موجود ہیں۔انہوں نے وفدکو ادارہ کے مختلف شعبہ جات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہاکہ آغاخان نیٹ ورک معاشرے کے تمام طبقات کی بلاتفریق خدمت کرتاہے اورجہاں حکومتیں کام میں کمزوری کامظاہرہ کرتی ہیں، وہ خلاء آغاخان نیٹ ورک پُرکرتاہے۔ ڈاکٹرمولاداد نے مزیدکہاکہ لوگوں کواقتصادی اعتبارسے خودکفیل بنانا آغاخان نیٹ ورک کامطمع اول ہے۔ ڈاکٹرمحمدبشیرخان اورڈاکٹرحسن الامین نے اپنے خطاب میں آغاخان نیٹ ورک کی خدمات کودیگرکے لیے ایک قابل تقلید مثال قراردیا۔
[pullquote]گلگت بلتستان بارایسوسی ایشن میں: [/pullquote]
‘‘انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں وکلاء کے کردار’’ کے موضوع پرسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے قائم مقام صدرڈاکٹرمحمدبشیرخان نے کہاکہ محض قوانین کے ذریعے یہ توقع رکھناکہ لوگ مطمئن ہوجائیں گے، سراسر خام خیالی ہے بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انصاف کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے سے معاشرے میں امن وچین کادوردورہ ہوسکتاہے۔ ڈاکٹرمحمدبشیر نے مزیدکہا کہ وکلاء معاشرے کا متحرک ترین طبقہ ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں دوچندہوتی ہیں۔ ڈاکٹرحسن الامین نے اپنے خطاب میں کہاکہ اگروکلاء بیدارہوں تو بالاترطبقات لوگوں کے حقوق چھیننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے خصوصی طورپر پاکستان میں ججوں کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلاء تحریک کا حوالہ دیا اورکہاکہ اس تحریک کے مثبت اورمنفی پہلوؤں پر بحث ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تحریک نے وقت کے آمر کوناکوں چنے چبوادیئے تھے۔ گلگت بارایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین محمدشہزادحسین نے کہاکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اورگلگت بلتستان کاخطہ بھی اسی میں شامل ہے جوکہ ایک المیہ ہے ۔ انہوں نے گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔سیمینار میں اس وقت عجیب صورت حال پیداہوگئی جب ایک وکیل شفقت حسین نے گلگت بلتستان کی 70سالہ محرومی پر ایک جذباتی تقریر شروع کردی۔ اگرچہ ان کو ایک نفسیاتی مریض قراردے کر ان کے بھائی امجدحسین نے اسٹیج سے ہٹادیا تاہم وہ اہلِ فکرونظرکے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئے۔ ان کی گفتگو کانقطۂ ارتکاز یہ تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں کیاجارہاہے؟ سیمینار سے جن دیگرشخصیات نے خطاب کیا ان میں پروفیسرمحمداکرم ورک، سبوح سید، پروفیسرقیصرشہزاد(اسلامی یونیورسٹی)شامل تھے۔ سیمینار میں گلگت بلتستان کے جج حضرات اوروکلاء کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔
[pullquote]وادی ٔ جمال ہنزہ میں :[/pullquote]
گلگت سے تقریباً سوکلومیٹر شمال میں وادیٔ جمال ہنزہ واقع ہے۔ تقریباً تین سومربع کلومیٹر پرپھیلی اس وادی تک پہنچنے کے لیے نگر کی وادی سے گزرناپڑتاہے۔ ہنزہ کے بارے میں وفد کے تمام ارکان بہت زیادہ اشتیاق کامظاہرہ کررہے تھے۔ ہنزہ کتنادور ہے ؟ سفرشوق طویل کیوں ہے؟ راستہ بھر ہرزبان پر یہی سوال تھا۔ راستے میں راکا پوشی کے منظر نے سب کو اپنا گرویدہ بنالیا شرکاء نے راکاپوشی سے آنے والی آب جو کابھرپورنظارہ کیا۔ جعفرآباد،علی آباداوردیگر آبادیوں سے گزرتے ہوئے وفد کریم آباد پہنچا۔ کریم آباد کی خاص بات وہاں کے دوقلعے بلتت اورالتت ہیں۔ آٹھ سوسال پرانے ان قلعوں میں تاریخ ،تہذیب، ثقافت اورتمدن کے گہرے نقوش موجود ہیں۔ گائیڈ نے جب وفد کو بتایا کہ ہنزہ ہرطرح کے جرائم سے پاک اورسوفیصد تعلیم کی وجہ سے ممتازہے۔ تو وفد کے ارکان بہت کچھ سوچنے پر مجبورہوگئے۔ اے کاش ہمارے دیگر علاقے بھی ان صفات سے متصف ہوجائیں۔
اگلے دن وفد کے ارکان نے کریم آباد سے پچیس کلومیٹردورعطاء آباد جھیل کادورہ کیا۔ 2010ء کے تباہ کن سیلاب سے جس انسانی المیہ نے جنم لیاتھا اسے اب پاک چین دوستی کے ایک ناقابل فراموش باب میں بدل دیاگیاہے۔ پچیس کلومیٹرلمبی چارسرنگیں پاک چین دوستی سے موسوم کردی گئی ہیں جن کے آخرپر گلمت کا گاؤں واقع ہے۔ یہاں سے شاہراہ قراقرم سوست سے ہوتے ہوئے خنجراب کے راستے چین میں داخل ہوجاتی ہے۔اسی شاہراہ پر چین میں کاشغرکامقام واقع ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
[pullquote]ہنزہ کیمپس میں :[/pullquote]
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ہنزہ کیمپس میں ‘‘عصرِ حاضر کے چیلنج اورنوجوانوں کی ذمہ داریاں’’ کے موضوع پر سیمینارمیں اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹرڈاکٹرمعصوم یاسین زئی اورنائب صدرڈاکٹرمحمدبشیرخان مہمانانِ خصوصی تھے۔ خطبۂ استقبالیہ میں قراقرم یونیورسٹی کے ہنزہ کیمپس کے ڈائریکٹر جناب رحمت کریم نے اسلامی یونیورسٹی خصوصاً اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ کی سماجی وثقافتی ومعاشرتی خدمات کوسراہااورہنزہ کیمپس میں جوچھ ماہ قبل قائم ہوااورجس میں اب تک طلبہ وطالبات کی تعداد 100ہے کو پہلے سیمینار کے لیے منتخب کرنے پر اسلامی یونیورسٹی کاشکریہ اداکیا۔ ڈاکٹرمعصوم یاسین زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ نسل نے جوکرناتھا، وہ ممکنہ حد تک کرلیا، اب مستقبل کی ذمہ داری نوجوانوں پرعائدہوگئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے سامنے خصوصاً ہمارے نوجوانوں کے سامنے اُسوہ حسنہ، اُسوۂ حضرت فاطمہؓ وحضرت عائشہؓ ہے۔ ان کی روشنی میں ہمیں بالخصوص ہمارے نوجوانوں کواپنے مستقبل کی تعمیر کرنی چاہیے۔ ڈاکٹرمعصوم نے کہاکہ دنیامیں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جوکوئی بڑاہدف اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹرمحمدبشیرخان نے اپنے خطاب میں کہاکہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ اورترقی پسند اقوام نوجوانوں پر خرچ کرکے آگے بڑھتی ہیں ترقی یافتہ اقوام نوجوانوں کے ذریعہ کئی گناہ فوائد حاصل کرکے دنیا کی امامت کاتاج اپنے سروں پر سجائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرکوثریاسین زئی، تجزیہ نگار سبوح سیّد، انعام اللہ جان، آنسہ حمیراسعید، آنسہ چاندنی،محمد یونس قاسمی اور دیگر نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اورنوجوانوں کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ حمیراسعید کی نعت۔
زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلانہیں ہوتا
محمدؐ کے غلاموں کا کفن میلانہیں ہوتا
نے ایک سماں باندھ دیا ان کا انداز اتنا مؤثرتھا کہ سب آبدیدہ ہوگئے۔ اسی طرح ڈاکٹر کوثریاسین زئی نے ماں کی گود کو بچے کی پہلی تربیت گاہ قراردیتے ہوئے جواندازاختیارکیا اس نے سب کو بہت متاثرکیا۔
ہنزہ سے واپسی پر وفدکے ارکان پروگرام کی کامیابی پرایک جانب خوش تھےتودوسری جانب وہ قدرت کے اس حسین شاہکارسے جدائی پر افسردہ بھی تھے۔ پھلوں، پھولوں، ندیوں،آبشاروں اورجھرنوں کی سرزمین سے جدائی سب کو پریشان کررہی تھی۔ ہنزہ کیساعجیب علاقہ ہے کہ جہاں کے تھانوں میں ایف آئی آر کاوجودنہیں ۔کیسا عجیب علاقہ ہے جہاں کے لوگوں کی صحت مثالی، عمریں طویل اورزندگیاں مسرتوں سے لبریز ہیں۔
مجموعی طورپر گلگت بلتستان کے لوگ انتہائی ملنسار، مہمان نواز اورخلیق ہیں۔ گزشتہ سترسال کے عرصہ میں حقوق نہ ملنے پر وہ شاکی ضرور ہیں لیکن کبھی آپے سے باہر نہیں سوچتے۔ وہ کہتے ہیں ملک گھر کی طرح ہوتاہے اگر گھرہی نہ رہا تو پھر ہم حقوق لے کر کیاکریں گے؟ لیکن لازم ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی آواز سنی جائے۔ انہیں آئینی حقوق دیئے جانے چاہئیں۔ آخر کب تک وہ سرزمین بے آئین کے باشندہ بن کررہیں گے؟ کشمیر کا مسئلہ طویل ہوتاجارہاہے۔ کشمیر یوں کی کئی نسلیں انتظارمیں رہیں اور اس دنیا سے چلی گئیں اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی انتظارکی کیفیت اورستم ہائے روزگارسے دوچارہیں۔ آخر کب تک ؟