کوئی 30 افراد کو کاٹ کر کھاسکتا ہے…

روسی آدم خور جوڑے کا 30 افراد کو کاٹ کر کھانے کا اعتراف

ماسکو: روس میں ایک آدم خور جوڑے نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے کم ازکم 30 افراد کو مار کر انہیں اپنا نوالہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے گھر میں مرنے والوں کے اعضا جمع کرنے اور ان کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔
پولیس نے آدم خور خاندان کے گھر سے 8 بڑے انسانی اعضا دریافت کرنے کی تصدیق کی ہے جبکہ مزید شواہد کے لیے گھر کے چپے چپے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس خونی واقعے کے مرکزی ملزم 35 سالہ دمیتری بکشیو ہیں جس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ 1999 سے انسانوں کو مار کر کھا رہا ہے۔ یہ خاندان جنوبی روس کے علاقے کراسنوڈر میں مقیم تھا اور اس شخص کی بیوی 42 سالہ نتالیہ ایک نرس ہیں جو خود اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔

پولیس نے گھر کی تلاشی کے دوران بعض تصاویر اور ’آدم خوری کے اسباق‘ سکھانے والی ویڈیوز بھی برآمد کی ہیں۔ نتالیہ کو گرفتار کر کے فوری طور پر اس کا نفسیاتی تجزیہ کرایا گیا تو انکشاف ہوا کہ آدم خور ذہنی اور نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند ہے۔
دمیتری بکشیو اور اس کی بیگم نے فریج اور فریزر کے علاوہ برتنوں اور مرتبانوں میں انسانی گوشت بھی جمع کر رکھا تھا۔ فریج سے انسانی اعضا کی 7 تھیلیاں بھی ملیں جن میں منجمند گوشت موجود ہے۔ اس کے علاوہ گھر سے مرنے والوں کی جلد کے 19 بڑے ٹکڑے بھی برآمد ہوئے۔ پولیس نے بتایا کہ معمولی دباؤ پر آدم خور جوڑے نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔ سب سے پہلے 12 ستمبر کو ایک گھر کے تہہ خانے سے خاتون کے اعضا برآمد ہوئے تھے جو ایک بالٹی اور شاپنگ بیگ میں موجود تھے جبکہ دوسرے بیگ میں خاتون کی دیگر اشیا رکھی تھیں۔

دمیتری کی ایک خاتون کے سر کے ساتھ تصاویر بھی ملی ہیں۔ اسی طرح ان کے گھر کے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو ایک موبائل فون ملا جس میں اس شخص کی انسانی اعضا کے ساتھ سیلفی لی گئی تھی۔ اسی طرح 28 دسمبر 1999 کو لی گئی ایک تصویر میں انسانی سر ایک پلیٹ پر رکھا ہے اور اطراف میں نارنگیاں دھری ہوئی ہیں۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ آدم خور خاندان گزشتہ 18 برس سے لوگوں کو شکار کر رہا ہے۔
آدم خور جوڑے نے اپنے شکار کو کوروالول نامی دوا پلا کر بے ہوش کرنے کا اعتراف کیا اور اس کے بعد وہ انہیں آسانی سے کاٹ کر کھاتے تھے۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے