سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) ریفرنسز کی سماعت کے لیے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے دوران رینجرز کی تعیناتی کے تنازع کے بعد پیرا ملٹری فورس پارلیمنٹ کی سیکیورٹی سے دستبردار ہوگئی۔
اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ پنجاب رینجرز اور فوری ریسپانس فورس (کیو آر ایف) کے اہلکار قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس کے دوران تقریباً 50 اہلکار پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
تاہم پنجاب رینجرز نے پارلیمنٹ ہاؤس پر تعینات اپنے اہلکاروں کو واپس بلا لیا جبکہ ان کی تعیناتی کے لیے تحریری ہدایت طلب کرلی۔
ادھر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکاروں کو واپس بلانے اور فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پر رینجرز اہلکاروں کی تعیناتی پر پنجاب رینجرز کے اعلیٰ عہدیدار سے وضاحت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز پنجاب کو جواب داخل کرانے کے لیے 72 گھنٹوں کا وقت دے دیا۔
اس معاملے سے متعلقہ نئی پیش رفت کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے رینجرز اہلکاروں کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی سے دستبردار ہونے کے بعد فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کو پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی سنبھالنے کی ہدایت جاری کردیں۔
پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ نے بتایا کہ دار الحکومت پولیس کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رابطہ کیا اور شہر میں موجود پارلیمنٹ ہاوس اور اس جیسے دوسرے حساس مقامات کی سیکیورٹی کے لیے مدد طلب کی تھی۔
ایس ایس پی اسلام آباد پولیس کی درخواست پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے رینجرز حکام کی تعیناتی کے لیے احکامات جاری کیے تھے۔
خیال رہے کہ رینجرز اہلکار انسدادِ دہشت گردی کے معاملے کے علاوہ کبھی بھی تحریری حکم نامے کے بغیر امور سرانجام نہیں دیتے۔
اسلام آباد انتظایہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سول ایڈمنسٹریشن، پولیس اور رینجرز کے درمیان اس وقت صورتحال پیچیدگی کا شکار ہے تاہم بغیر کسی احکامات کے رینجرز کی فیڈرل جوڈیشل کونسل پر اچانک تعیناتی سے یہ صورتحال مزید خراب ہوگئی۔
رینجرز نے احتساب عدالت کی سیکیورٹی سنبھالنے کے بعد وفاقی وزراء بشمول وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال، کورٹ پہنچنے والے وکلا اور کیس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو بھی عدالت میں داخلے سے روک دیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ایک عہدیدار سے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ اس معاملے کا اسپیکر ہاؤس یا سیکریٹریٹ سے کوئی تعلق نہیں۔