کیا اب یہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ ریاست کنفیوژن کو ختم کرنا چاہتی ہے؟یا پھریہ محض ایک خوش گمانی ہے؟6ستمبر2017ء کو یوم دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے سالارکے الفاظ کی بازگشت ابھی تک محسوس کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:’’جہاد صرف ریاست کا حق ہے ، بھٹکے ہوئے لوگ جہاد نہیں فساد کر رہے ہیں۔ ‘‘ اس کے بعددو دن قبل 5اکتوبر2017ء کو وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی ایک تقریر میں کم وبیش یہی الفاظ دہرائے۔ ان کا کہنا تھا:’’جہاد کا اعلان کرنا ریاست کا حق ہے،ہر محلے یا مسجد سے یہ فتویٰ جاری نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ ہم ان دونوں بیانات کو جوڑتے ہوئے نیک فال کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ شاید حکومت اور طاقت ور ادارے زیادہ نہ سہی ، کم ازکم اس نقطے پر متفق دکھائی دے رہے ہیں ۔ خدا کرے حقیقت میں بھی ایسا ہو۔
فوج کے سالار کے 6ستمبر والے بیان کا دوسرا حصہ البتہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ انہوں نے ’’بھٹکے ہوئے لوگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ، جس کاایک مطلب یہ ہے کہ جب تک ریاست یہ سمجھتی تھی کہ ان (عسکریت پسندوں)کی کارروائیاں ’’جہاد‘‘ ہیں تو وہ راہ راست پر تھے، اب وہ اس سیدھے راستے سے ہٹ چکے ہیں ، لیکن ریاست نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ درحقیقت کیا سمجھتی ہے۔دوسری جانب وزیرداخلہ احسن اقبال کا یہ کہنا کہ ’’ہر مسجد ومحلے سے یہ فتویٰ جاری نہیں ہوسکتا۔‘‘ان تمام عسکری گروہوں کے لیے واضح پیغام ہے ، جنہیں ماضی قریب تک ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ ان جہادی گروہوں کے کمانڈر پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں جلسوں سے خطاب کرتے تھے اور لوگوں کو فلسطین وکشمیر کے مظلوموں کے احوال سنا کر ان کی ’’ذمہ داریوں‘‘ سے آگاہ کیا کرتے تھے ۔ اب ان گروہوں کے لیے حالات قدرے مختلف ہیں۔ ہاں! کشمیر و فلسطین میں ظلم ستم اب پہلے سے زیادہ شدت سے جاری ہے۔
ہمیں یاد ہے نوے کی دہائی میں جب ’’جہاد کشمیر‘‘ کے نام پر درجنوں عسکری تنظیمیں قائم ہوئیں تو پاکستان کے طول وعرض میں نجی سطح پر تشہیری مہمیں چلتی تھیں ۔ دیواروں ، سڑکوں ، کھمبوں پر ہمیں جہادی بینز لگے دکھائی دیتے تھے ۔ جا بجا مذہبی عسکری گروہوں کے جلسے جلوس ہوا کرتے تھے ۔ لشکرطیبہ ، حرکت المجاہدین، انصارالأمہ، البدرمجاہدین،جیش محمد، حرکت الجہاد،اسلامک فرنٹ اور نہ جانے کون کون سی تنظیمیں متحرک تھیں ۔ ان تنظیموں میں اہل حدیث ، دیوبندی اور جماعت اسلامی زیادہ سرگرم دکھائی دیتی تھیں۔ ہر طرف جہادی لٹریچر تقسیم کیا جاتا تھا۔ جہادی کمانڈروں اور مذہبی علماء نے اس دور میں ’’غزوہ ہند‘‘ کے اثبات اور (کشمیرکی خاطر) بھارت خلاف جنگ پر اس کی تطبیق پردلائل کشید کیے اور ضخیم کتابیں مرتب کیں۔ اس وقت مذہبی پروپیگنڈے کی زور دار لہر سے بے شمار نوجوان متاثر ہو کر ان عسکری دھڑوں میں شامل ہوئے اور بہت سے اس جنگ میں کام آگئے ۔
اب میں کبھی لاہور میں ہر اتوار کو لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار میں جاتا ہوں تو مجھے وہ جہادی کتابیں فٹ پاتھوں پر پڑی دکھائی دیتی ہیں ۔ گاہک ان کی جانب کم ہی التفات کرتے ہیں ۔میں وہ کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھتاہوں اور سوچتاہوں کہ ’نیک لوگوں‘کی کارگاہِ فکر میں دیے گئے جزوقتی ایجنڈے کے حق میں کیسے کیسے دلائل پھوٹا کرتے تھے۔ سوچتا ہوں ریاست کی پالیسیاں کیسی عجیب ہیں۔جب تک اسے پراکسی دھڑے ضرورت تھے تو نچلی سطح پر معصوم ذہنوں کو ’’کمانڈروں‘‘ کے ذریعے بتایا گیا کہ یہ اسلام کا مقدس فریضہ ’’جہاد‘‘ ہے ، کشمیر وافغانستان کے مظلوموں کی مدد ہم پر فرض ہے ۔نتیجے میں کچے ذہن آتے گئے اورکارواں بنتے چلے گئے۔ اب جبکہ حالات بدل چکے تو وہی جہادی ’’بھٹکے ہوئے لوگ ‘‘قرار پاچکے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ریاست نے جہاد کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا ۔ یہ جہاد کی اصطلاح تو محض نچلی سطح پر ہی چلتی رہی تھی ۔گویا ہمارے طاقت کے مراکزخود ہی اپنے ماضی کے اقدامات کوجھٹلا رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ماضی کے بہت سے متحرک جہادی دن رات ایک کرکے خود سے وہ پرانی شناخت کھرچ دینا چاہتے ہیں ۔ وہ کوشش کر کے کہ قومی دھارے میں شامل ہونے کی اداکاری کررہے ہیں اور اسی میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔یہ سابق جہادی ’’مقدس‘‘ بتائی گئی اس جنگ میں جان کھودینے والوں کے بارے میں ایک اصطلاح ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ برت کر آگے نکل جاتے ہیں۔ یہاں سے ان نجی جہادی گروہوں کے ’’تقدس‘‘ کا پول کھل جاتا ہے اور اس جنگ کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے۔
موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات مستقبل قریب میں بھی اسی طرح کا اُتار چڑھاؤ کا شکار رہیں گے ۔ اس بارے میں ہم فی الحال کوئی خوش فہمی پالنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،لیکن نجی عسکری گروہوں کے خاتمے کے لیے فو ج کے سربراہ اور وفاقی حکومت کے موقف میں لفظی ہم آہنگی دیکھ کر خوشگوار حیرت ضرورہوئی ۔کچھ احباب نے کہا کہ وزیرداخلہ اور سالار کے کم وبیش مماثل بیان کا پس منظر الگ الگ ہے ، یہ بات بھی قابل اعتناء ہے مگرہم اچھے کی امید تو رکھ سکتے ہیں ۔ریاست کی ماضی کی متذبذب پالیسیوں اور نظریہ فروشی کے نتیجے میں معاشرتی انتشار بڑھاہے ۔ مذہبی فرقوں کی بنیاد پر تقسیم اور گروہوں کے درمیان تصادم میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مذہب کی تشریحات میں کچھ ایسا تنوع پیدا ہوا ،جس کے نتیجے میں ہر عسکری اور فرقہ پرست گروہ اپنی من پسند دلیلیں کشید کرنے لگا۔اب یہ سلسلہ رکنا چاہئے اور ایک بہت بڑی افرادی قوت کو کسی اور مفید میدان میں بروئے کار لانا چاہیے ۔ انہیں کسی ’بڑے نظریاتی ایجنڈے‘ کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ،ان کی تربیت بطور جدید ریاست کے شہری کے کی جائے، جس کا وجوداپنی ذات اور معاشرے کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اصلاح کا عمل شروع ہونے کی بڑی علامت ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ہے ۔ اس کے بعد ہی تجزیے اور حل کی راہیں کھلتی ہیں ۔ اس اعتراف کے لیے جرأت اور دُور اندیشی درکار ہوتی ہے ۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کے قیام کے لیے ریاستی پالیسیوں کا شفافیت کے اصولوں پر مبنی ہونا ضروری ہے ۔