دفتر خارجہ اعلیٰ امریکی حکام کے دورہ پاکستان سے لاعلم

دفتر خارجہ نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن اور سیکریٹری دفاع جنرل جیمز میٹس کے آئندہ چند روز میں ممکنہ دورہ پاکستان کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ’ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ (امریکا سے) ’کب اور کون‘ آرہاہے، تاہم دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ وہ ہر سطح پر رابطے میں رہیں گے‘۔

نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہونے والی دوطرفہ انٹیلیجنس وفد کی ملاقات کو مثبت اور بامعنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کے دوران بات چیت دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے پر مرکوز رہی جس میں علاقائی سلامتی کی صورتحال سمیت افغانستان میں پاک امریکا تعاون بھی زیر بحث رہا۔

ایک سوال کے جواب نفیس زکریا نے کہا کہ ’دہشتگری ایک مشترکہ دشمن ہے جبکہ تمام ممالک کو دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے‘۔

نفیس ذکریا نے واشنگٹن میں پاک امریکی وفود کی حالیہ ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانے میں اہم پیش رفت قرار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں مزید بات چیت مدد گار ثابت ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک افغانستان میں نئی امریکی حکمت عملی کے تناظر میں مستقبل میں تعاون کو مزید بہتر بنانے کے لیے اہم امور پر تفیصل سے کام کررہے ہیں۔

پریس بریفنگ کے دوران جب نفیس زکریا سے امریکی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ان خبروں سے متعلق دریافت کیا جس میں کہا جارہا تھا کہ امریکا پاکستان کو سخت پیغام دینے والا ہے تو دفتر خارجہ کے ترجمان نے مختصراً جواب دیا کہ ’وہ کسی بھی میڈیا رپورٹس پر تبصرہ نہیں کرتے‘۔

نفیس ذکریا نے امریکی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان پر کہا کہ یہ دورہ گزشتہ مہینے نیویارک میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکی نائب صدر مائیک پنس کے درمیان ہونے والی ملاقات کی ایک کڑی ہے۔

نفیس ذکریا نے مزید بتایا کہ امریکی وفد میں نیشنل سیکیورٹی کونسل، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے اعلیٰ افسران شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات دوطرفہ خواہش کا نتیجہ تھی جس میں علاقائی صورتحال سمیت ہر سطح پر مشترکہ کوشش پر زور دیا گیا۔

پریس بریفنگ کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی رحجان پر واضح موقف رکھتا ہے اور امریکا کو باور کرایا جا چکا ہے کہ اس طرح خطے میں امن کے توازان کو خطرات لاحق ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے اس حوالے سے تمام متعلقہ فورمز پر آواز اٹھائی ہے جبکہ پاکستان کے پاس اس حوالے سے تمام شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت افغان سرزمین پر دہشتگردوں کو پناہ دے رہا ہے جو پاکستان میں دہشتگردی اور انتشار کے ذمہ دار ہیں۔

افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک میں امن و استحکام لانے کے لیے پاکستان کی پوزیشن واضح ہے جبکہ اسلام آباد نے ہمیشہ کابل کی جانب سے ملک میں امن بحال کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کیخلاف امریکا کو مشترکہ فوجی آپریشن کی پیشکش پر دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’خواجہ آصف کے بیان کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ دہشتگری ایک عالمی مسئلہ اور تمام ممالک کو اس کے سدباب کے لیے مشترکہ کوشش کرنی چاہیئں.‘

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر بھرپور کاررائی کے لیے تیار ہے، جس کی تازہ ترین مثال حالیہ آپریشن ہے جس میں غیر ملکی خاندان کو بازیاب کرایا گیا۔

دفتر خارجہ نے بلوچستان میں ایرانی بارڈ سے داخل ہونے والے دہشتگردوں اور فوجیوں کو ہلاکت کی اطلاعات پر کہا کہ ’ہم نے ایران سے مل کر ایک میکانزم تیار کرلیا ہے جس میں بارڈ سے متعلق تمام مسائل سمیت خطے کی سالمیت اور دوطرفہ تعلقات کا فروغ شامل ہے‘.

بھارتی فضائیہ کے سربراہ کے پاکستان مخالف جارحانہ بیان پر نفیس ذکریا نے کہا کہ ان کے بیان سے اس بیمار ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے جو ریاستوں کے درمیان طرزعمل کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

دفترخارجہ کے ترجمان نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے غیر ذمہ درانہ رویے کے حوالے سے ضروری اقدامات کررہا ہے تاہم اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت کی کوشش کی تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔

پریس بریفنگ کے دوران نفیس زکریا نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم اور معصوم کشمیریوں کا قتل عام بن کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں عالمی برداری پر زور دیا کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں فیٹ فائنڈنگ مشن بھیجے جس کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) سمیت دنیا بھر رہنماوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے بھی کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے