زارا قاضی
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گذشتہ برس ماہ فروری کے حسین ایام کبھی نہیں بھولتے جب میں میں عمرہ کرنے گئی.. سات دن مکہ مکرمہ میں گذارنے کے بعد ہمارا اگلا پڑاو مدینۃ الرسول ّ تھا جہاں ہمیں آٹھ روز قیام کرنا تھا ۔ شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچیں. ظہر کی نماز رستے میں ادا کی اور عصر سے کچھ ہی دیر پہلے مدینہ پہنچے
سبھی مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانے کو بےتاب تھے سو سامان رکھتے ہی مسجد کا رخ کر لیا. عصر کی نماز ادا کی. پتہ چلا کہ خواتین کے لیے روضہ مبارک جانے کے اوقات مقرر ہیں. خواتین فجر، ظہر اور عشا کی نماز کے بعد روضہ مبارک کی جانب جا سکتیں ہیں. یوں ہم لوگ بے تابی سے عشا کی نماز کا انتظار کرنے لگے
عشا کی نماز کے بعد اعلان ہوا کہ مختلف زبانوں میں روضہ مبارک پر جانے کے آداب بتائے جا رہے ہیں اپنی اپنی زبان کے گروپ میں جا کر بیٹھ جائیں. ہم لوگ بھی جگہ بناتے اردو میں ہدایات دینے والے گروپ کی جانب جا پہنچے. ہدایات سننے کے بعد کچھ دیر کا وقفہ تھا جس کے بعد روضہ مبارک کی طرف جانے والا دروازہ کھول دینا تھا.. اس وقت دل کسی دنیاوی کام میں نہیں لگ رہا تھا. میں زیر لب درود مبارک کا ورد کر رہی تھی کہ میرے ساتھ بیٹھی 15،16 سالہ لڑکی بڑی بےتکلفی سے بولی. کہاں سے آئی ہو؟ دوسرے ملک میں جا کر اپنے ملک سے محبت بلاشبہ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے اور کچھ پاکستان کا حوالہ ہمیشہ سے کم از کم میرے لیے قابل فخر رہا ہے. سر اٹھا کر میں نے اسے بتایا کہ پاکستان سے اس لڑکی نے افسوس کا اظہار کر تے ہوئے مجھ سے پوچھا بچاری تم.. تم ادھر کیسے رہ لیتی ہو ، ادھر کے تو حالات بہت خراب ہیں. اتنے دھماکے ہوتے ہیں. میں نے اسے کہا کہ میرے ملک کے حالات اس قدر بھی خراب نہیں مگر اسے یقین نہ آیا اور بھی نہیں ہیں مگر وہ نفی میں سر ہلاتی ترس کھاتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی… وہ موقع ایسا نہیں تھا کہ صفائیاں پیش کی جاتیں یا بحث میں پڑ کر اسے بتایا جاتا کہ بھارت کی ساڑھے آٹھ کروڑ کی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے. آبادی کے طرز زندگی اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے بھارت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے.. جہاں کے 40 کروڑ شہری ٹائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں.. ایسے ملک میں بسنے والے کیسے پاکستان پر انگلی اٹھا سکتے ہیں.. مجھے آج بھی وہ تکلیف یاد ہے جو مجھے ”بےچاری پاکستانی” سن کر ہوئی
روضہ مبارک کو جاتا دروازہ کھل گیا تھا.. میرے ذہن میں اور کوئی دعا نہیں تھی مجھے آج بھی یاد ہے.. میری دعاؤں میں صرف پاکستان کی سلامتی تھی. صرف پاکستان کا حوالہ دنیا کے سامنے قابل فخر بنانے کی دعا.. میں نے بعد میں اس لڑکی کو کتنا ڈھونڈا کہ وہ مجھے مل جائے میں اس سے ڈھیر ساری بحث کروں.. مگر وہ مجھے دوبارہ نہیں ملی
اگست کا مہینہ ہمیشہ کی طرح ہمارا جذبہ حب الوطنی تازہ کرتا ہے ۔پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے.. جیسے رمضان کی آمد ایمان کو تازہ کر دیتی ہے ویسے ہی اگست کے مہینے کی آمد جذبہ حب الوطنی کو تازہ کر دیتی ہے.. اور جیسے مذہب پر کسی بھی قسم کا حملہ ناقابل برداشت ہوتا ہے وہی حال وطن کا بھی ہے
ابھی جب سے اگست کا مہینہ شروع ہوا میں دیکھ رہی ہوں کہ عوام کی اکثریت پاکستانی پرچم کے بیجز سینے پر سجائے اور گاڑیوں پر جھنڈے لگا کر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ہر طرف فضا میں سبز رنگ چھایا ہوا ہے.. ایسے لگتا ہے جیسے اگست کا یہ مہینہ بھی ہمیں پھر سے ایک قوم بنا کر دم لے گا۔
غم اور خوشی میں ایک قوم بن جانے والے یہ پاکستانی ،دشمن کی سمجھ سے بالاتر ہیں. آپس میں لڑتے مرتے ہیں مگر کوئی ایک سانحہ کوئی ایک خوشی ان کو پھر سے ایک کر دیتی ہے.. ناجانے کس مٹی سے بنے ہیں اپنی مٹی پر بات آ جائے تو دشمن کو مٹی میں ملا دینے تک پہنچ جاتے ہیں۔
اس ملک کے سیاست دان ملک کے ساتھ مخلص ہیں یا نہیں مگر ان کے سپورٹرز آپس میں جب لڑتے ہیں تو لڑائی کی وجہ پاکستان ہو تی ہے ۔ جس کو جو لیڈر ملک کے ساتھ مخلص لگتا ہے عوام اسی کے لیے جان و مال قربان کرنے کو تیار نظر آتی ہے.. عوام کا جوش اور وطن سے محبت کا جذبہ دیکھ کر یقین ہو چلا ہے کہ
جب اپنا قافلہ عزم ویقین سے نکلے گا پھر جہاں سے چاہو گے،چشمہ وہیں سے نکلے گا وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا