جب والدین ، استاد اور مولوی ناکام ہو گئے

paki-new-two

ندیم عباس

11720426_794965493955409_1862525235_n

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

  • سانحہ قصور ایک معاشرتی المیہ ہے

    قصور کا واقعہ ایک سانحہ کی کی حیثیت رکھتا ہے اس سے جہاں ایک چھپی ہوئی معاشرتی برائی آشکار ہوئی وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ کس قدر بھیانک قسم کے جرائم ہماری سوسائٹی میں ہو رہے ہیں

    قصور جیسے واقعات کے ہونے پر حکومت کی ناکامی تو اپنی جگہ پر ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کے تمام گروہوں کی بھی ناکامی ہے

    اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے والدین کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہے

    استاد معاشرے کا اہم جزو ہیں ان کی ذمہ دار تھی کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتے

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ استاد کو بچے کی اچھی بری عادات کا پتہ چل جاتا ہے اور استاد ایک مربی کے طور پر بچوں کا سمجھاتا ہے ان کی تربیت کرتا ہے استاد نے بھی یہ کردار ادا نہیں کیا

    مسجد تربیت گاہ ہوتی ہے یہاں پر تو سب سے زیادہ توجہ ہی اس جیسے اخلاقی بگاڑ والے والے معاملات سے بچانے پر دی جاتی ہے مولوی صاحب بھی یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہے

    ظلم اور مسلسل بربریت کے خلاف معاشرے کا اجتماعی شعور حرکت میں آتا ہے

    مجھے حیرانگی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ واقعات ہوتے رہے مگر معاشرے نے کوئی مزاحمتی حرکت نہیں کی

    ریاست کو بہت پہلے حرکت میں آنا چاہیے تھا مگر شائد ریاست کے اپنے زخم اتنے ہیں کہ ریاست اس طرف توجہ نہ کر سکی

    رہی بات قانون کی تو قانون تو اندھا ہوتا ہے اسے راستہ دکھانے والی آنکھوں کی ضرورت ہوتی شائد اب تک اسے وہ آنکھیں نہیں ملیں اور اگر میں کہوں کہ قانون مکمل طور پر معذور ہو چکا ہے تو بے جا نہ ہو گا

    جیسے ہی آپ قانون سے حرکت کا مطالبہ کریں گے قانون اپنی معذوری کا ظاہر کر دیتا ہے اور جب آپ اس کی کسی ایک معذوری کو دور کریں گے قانون دوسری معذوری پیش کر دے گا

    میڈیا جس نے اب آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور انتہائی مبالغہ آمیر باتیں کی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس گاؤں کے لوگ گھر وں کو تالے لگا کر عزیز و اقارب کے ہاں منتقل ہو رہے ہیں ۔اس نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے ۔یہ آیان کے ہیٹ اور جوتوں پر بولتا رہا مگر اس طرح کے ظلم کی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔

    اگر اس قسم کے واقعات کو روکنا ہے تو ہمیں بہت کچھ کرنا ہو گا اوراس کا آغاز قانون سے کرنا ہو گا

    لگتا یوں ہے کہ اب ایسے قانون کی ضرورت ہے جو آنکھوں والا ہو

    جو خود بیمار نہ ہو تاکہ جو بھی اس کےشکنجے میں آئے اس سے بچ نہ سکے

    ظالم جس سے خوف زدہ ہو

    مظلوم جس سے راحت محسوس کرے

    جو بکتا نہ ہو

    جس سے جرم کی بیج کنی ہو

    والدین کو گھر کی سطح پر ایسا ماحول بنانا ہو گا جس میں بچوں کو وہ تمام باتیں بتا سکیں جن کی عملی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے

    بچوں کی عملی زندگی پر نظر رکھنی ہوگی

    بچے کے دوستوں کے انتخاب میں مدد کرنا ہوگی اور اگر بچے کے ساتھ کوئی غلط حرکت کی جاتی ہے بچے کی یوں تربیت کی جائے کہ وہ گھر آ کر بتائے اور اس پر قانونی کاروائی کی جائے

    استاد کو ایک انقلابی کردار ادا کرنا ہے اسے اپنے بچوں کو درپش مسائل سے آگاہ کرنا ہے

    اسے تمام بچوں پر نظر رکھنی ہے

    بچوں کو ان تمام باتوں سے آگاہ کرنا ہے جو مستقبل میں اس کے ساتھ پیش آ سکتی ہیں

    مولوی صاحب نے ان تمام گناہوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی ہے

    ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ شریعت کے مسائل بتانے میں شرم نہیں ہوتی ،اس لیے ان مسائل کو ادبی پیرائے میں بتا دیں اور ان کی سنگینی کا بھی بتا دیں، سب سے بڑھ کر معاشرے کو ایک مزاحمتی کردار ادا کرنا ہے

    معاشرے کا یہ المیہ رہا ہے کہ ایک تو کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے اور دوسرا اسی مظلوم کو مطعون کیا جا رہا ہوتا ہے

    بچے اور اس کے گھر والوں کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے

    کوئی بات نہ بھی کرے تو بھی کاٹنے والی نگاہوں سے دیکھ کر ہی سانپ کی طرح ڈس لیا جاتا ہے

    اگر معاشرے کو بہتر انداز میں قائم رہنا ہے تو اسے ظالم کے مقابل مظلوم کی حمایت میں کھڑا ہونا پڑے گا نہیں تو قصور جیسے واقعات ہوتے رہیں گے

    میڈیا کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اب جتنا وقت اس واقعہ کے بعد اس کی تشہیر پر لگایا جا رہا ہے، کاش ایسے ہی اپنے نمائندوں کی تربیت کی جائے کہ وہ اس قسم کے معاملات کی نشاندہی کریں تاکہ ان کی بروقت روک تھا کی جا سکے

    ریاست کو جاگنا ہو گا

    ریاست جو ماں کی طرح ہوتی ہے جو اپنے شہریوں پر ہونے والے کسی بھی قسم کی تشدد پر حرکت میں آ جاتی ہے

    اسے اب اپنے اوپر اور زخم نہیں لگوانے چاہییں ۔

    ان تمام لوگوں کو جس قسم کے گھناونے جرائم میں ملوث ہیں ان کو نشان عبرت بنانا ہوگا ایسا نشان عبرت کہ لوگ اس کی مثال دیں اور اس گھناونے انجام سے ڈریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے