نوازشریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فلیگ شپ انویسمنٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر فردِ جرم عائد کی اور ان کے دو صاحبزادوں، حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز دو ریفرنس (ایون فیلڈ ریفرنس اور عزیزیہ اسٹیل) میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی تھی۔

20 اکتوبر 2017 کو احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے نمائندے ظافر خان ترین پیش ہوئے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پڑھ کر سنائی، تاہم نواز شریف کے نمائندے نے صحت جرم سے انکار کیا۔

جس کے بعد احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد کی جبکہ ان کے دونوں صحبزادوں حسن نواز، اور حسین نواز کو مفرقر ملزم قرار دے دیا۔

گذشتہ روز نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر پر فردِ جرم عائد کی تھی۔

ریفرنس پر سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، جہاں فرد جرم عائد ہونے پر کمرہ عدالت میں موجود مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

دوسری جانب نواز شریف (جو اِن دنوں لندن میں موجود ہیں) کے وکیل ظافر خان نے اپنے موکل کا بیان پڑھ کر سنایا اور صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

اپنے بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘شفاف ٹرائل میرا حق ہے اور آئین میرے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے لیکن مانیٹرنگ جج کو خاص طور پر اس کیس میں تعینات کیا گیا’۔

احتساب عدالت میں جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے آغاز پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کی جانب سے عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی جِلد نمبر 10 موجود نہ ہونے کی وجہ سے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے عدالتی کارروائی کو روک دیا جائے۔

جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ فردِ جرم عائد ہونے کے سلسلے میں جے آئی ٹی رپورٹ کی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے بھی ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف نے نیب ریفرنسز کے خلاف سریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس کا فیصلہ آنے تک احتساب عدالت کی کارروائی کو مؤخر کیا جائے تاہم احتساب عدالت نے اس درخواست کو بھی مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد پر فردِ جرم عائد کی جانی تھی تاہم احاطہ عدالت میں دھکم پیل اور وکلا کی جانب سے احتجاج کے باعث ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے رواں ماہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے