سپریم کورٹ میں آف شور کمپنیوں پر پٹیشن کی سماعت جلد متوقع

اسلام آباد: جماعت اسلامی کی جانب سے گذشتہ سال پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پٹیشن پر سماعت کا دوبارہ آغاز 23 نومبر متوقع ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ پٹیشن پرجسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

واضح رہے کہ 3 نومبر کو جماعت اسلامی کی جانب گزشتہ سال جمع کرائی گئی زیر التوا پٹیشن کی یاد دہانی کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 ججز پر مشتمل بینچ نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کیس کی سماعت میں جماعت اسلامی کی پٹیشن کو الگ کردیا تھا تاہم کورٹ نے جماعت اسلامی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی پٹیشن کسی اچھے وقت پر ضرور سنی جائے گی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے وکیل ایڈووکیٹ محمد اشتیاق احمد راجہ نے درخواست میں خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پٹیشن پر جلد سماعت نہ کی گئی تو درخواست گزار سمیت عام عوام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے رولز 1980 کے مطابق آرڈر 33 اور رول 6 کے اندر درج کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ پٹیشن کو وسیع تر قومی مفاد میں دائر کیا گیا تاکہ قوم کا پیسہ بچایا جا سکے اوراس کیس کی سماعت میں اگر دیر کی گئی تو آف شور کمپنی کے مالکان کو اپنے ذرائع آمدن اور پیسہ چھپانے میں مدد ملے گی۔

اپنی پٹیشن میں سراج الحق نے اپیکس کورٹ سے گزارش کی کہ 5 جواب دہندگان جن میں وفاقی حکومت کے وزارت برائے پارلیمانی امور، سیکرٹیز آف لاء اینڈ جسٹس، فائنانس اینڈ کیبنیٹ ڈویژن اور قومی احتساب کے ادارے ان تمام افراد کے غیر قانونی سرمائے کو، جنہوں نے چوری کیے گئے سرمائے کو بیرون ملک آف شور کمپنی میں جمع کر رکھا ہے، کو واپس لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایک جانب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دے رہا ہے وہیں حکام اور بیوروکریٹس اور چند شہری آف شور کمپنیوں میں غیر قانونی طریقوں سے اپنا پیسہ جمع کر رہے ہیں جبکہ اتنی بڑی رقم کو غیر قانونی طریقوں سے بغیر ریاست کی اجازت کے منتقل کیے جانے سے عوام کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ آف شور کمپنیوں میں جمع کیا گیا پیسہ عوام کا ہے، پٹیشن میں مزید الزام لگایا گیا کہ جواب دہندگان پاناما پیپرز کے مسئلے کو اپنی حکومت کے اختتام تک تاخیر کرنے کی کوشش کر رہے۔

پٹیشن میں سراج الحق نے بتایا کہ بڑی تعداد میں حکومتی ارکان آف شور کمپنیوں میں اپنا پیسہ جمع کر رہے ہیں تاہم ایسے تمام افراد سزا کے حق دار ہیں۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومتی ایجنسیوں کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے احتساب کے عمل میں شفافیت نہیں رہی اور نیب کی موجودگی میں احتساب کا موجودہ نظام وسیع پیمانے پر نہیں دیکھا جارہا۔

آف شور کمپنیوں میں قومی خزانے کی غیر قانونی ترسیل کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے تحت جرم قرار دیا جانا چاہیے اور عدالت کو اس میں ملوث تمام افراد کے خلاف انکوائری کمیشن بنا کر ٹرائل کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے