: قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے آخری لمحات میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اصلاحات سے متعلق بل پیش نہ کرنے پر حزب ِاختلاف جماعتوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔
وقفہ سوالات کے بعد ارکان اپوزیشن اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگے اور ایجنڈے کی بھی کاپیاں پھاڑ دیں۔
فاٹا اصلاحات کا معاملہ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے رکن شہاب الدین اور فاٹا پارلیمانی لیڈر شاہ جی قل آفریدی کی جانب سے اٹھایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے فاٹا اصلاحات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔
مجوزہ بل کے مطابق سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔
ایوزیشن جماعتوں کا احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گیا جب وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب اور وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ فاٹا اصلاحات بل پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
فاٹا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
بعدازاں قائد حزب اختلاف سید خورشد شاہ کی قیادت میں ارکان اپوزیشن اسپیکر کی ڈائس کے پاس پہنچ کر احتجاج کیا۔
خیال رہے کہ حکومت نے بروز جمعہ خود اعلان کیا تھا کہ فاٹا اصلاحات بل بروز پیر کو قومی اسمبلی میں پیش کردی جائے گا۔
پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز اور وزیرسیفران عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ فاٹا کے حوالے سے قانون سازی کا عمل ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔
اتوار کی شب قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنی ویب سائٹ پر پیر کو ہونی والی کارروائی کا ایجنڈے شائع کیاتھا جس میں فاٹابل ‘سپریم کورٹ اینڈ ہائی کورٹ بل 2017’ بھی درج تھا ۔
جب ارکان قومی اسمبلی اور صحافی پیر کے روز اسمبلی میں پہنچے تو ان کے سامنے ایجنڈے کی نئی کاپی تھی جس میں فاٹابل سے متعلق کچھ بھی درج نہیں تھا۔
خبر کے شائع ہونے تک قومی اسمبلی کے ویب سائٹ پر پرانا یجنڈا دیکھا گیا۔
وزیر پارلیمانی امور عبدالقادر بلوچ نے وضاحت پیش کی کہ حکومت نے بل ‘واپسی’لیا ہے جس میں مزید کام کی گنجائش ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ بل اگلے تین سے چار روز میں پیش کردیا جائے گا۔
قائد حزب ِاختلاف سید خورشید شاہ نے بتایا کہ ‘فاٹابل سے متعلق وزیر سیفران نے انہیں فون کیا اورمیں حیران ہوں کہ آج ایجنڈے میں فاٹابل شامل نہیں ہے’۔
انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کیا ہوا کہ ایجنڈے میں اچانک فاٹاکا بل نکال دیا گیا۔
سید خورشید شاہ نے ایجنڈے میں تبدیلی کو حکومت کا ‘نیا مزاق’قرار دیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پارلیمنٹ کی اہمیت کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت پارلیمنٹ کو بے کار (فالتو) سمجھتی ہے’۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن ارکان سمیت حکمراں جماعتوں کے رہنما بھی فاٹابل کی حمایت کرتے ہیں، وزیر سیفران وضاحت کریں کہ حکومت نے کن بنیادوں پر ایجنڈے میں تبدیلی کی؟
خورشید شاہ نے وزیر سیفران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر آپ کے پاس اختیارات نہیں یا کوئی اور مجبوری ہے تو برائے مہربانی ہمیں بتائیں’۔
ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے بتایا کہ تکنیکی بنیادوں پر بل ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاسکا۔
پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ وزیرپارلیمانی امور سے ‘تکینکی بنیادوں’ سے متعلق سوال کیا جائے ۔
شاہ محمود قریشی نے نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ ‘کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کسی سبب کے بغیر سیاسی بحران پیدا کررہے ہیں’۔
ب
انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ حکمراں جماعت دو لوگوں کی وجہ سے ملکی فضا میں انتشار چاہتے ہیں کیوں کہ وہ دونوں فاٹااصلاحات کے حق میں نہیں۔
یاد رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دو اہم اتحادی جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پشونخوا ملی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کی جانب سے فاٹا پیکج اور فاٹا کو خیبر پختونحوا میں ضم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔
جس کے باعث مسلم لیگ (ن) سمیت حزب اختلاف جماعتوں میں اتفاق رائے کے باوجود فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کا معاملہ التوا کا شکار ہوگیا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ فاٹابل میں تاخیری حربوں سے لوگ سڑکوں کا رخ کرے گا جبکہ قبائلی علاقوں کے شہری جماعت اسلامی (جے آئی) کی قیادت میں اسلام آباد کے راستے میں ہیں۔
انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ ‘آپ (حکومت) ہمیں سڑکوں پر جانے کے بجائے پارلیمنٹ میں آنے کا کہتی ہے اور جب ہم پارلیمنٹ میں آئیں تو ایجنڈے میں سے بل غائب ہوتا ہے، آپ دراصل دھرنوں کے ذریعے مسائل کا حل چاہتے ہیں’۔
بعدازاں اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا جس پر پی ٹی آئی کے رکن امجد علی نے کورم مکمل نہ ہونے کی جانب توجہ دلائی۔
ڈپٹی اسپیکر نے کورم مکمل نہ ہونے پر اسمبلی کی کارروائی 12 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔