پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو کٹھ پتلی تماشے کے عالمی دن پر مبارکباد دی ہے سچائی کا تقاضہ یہ ہے مبارکباد قبول کر لی جائے ۔پاکستان میں سیاستدانوں کو تمام خرابیوں کا زمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور اس مقصد کیلئے جنرل ایوب کے ایبڈو سے لے کر جنرل ضیا الحق کی مجلس شوری اور جنرل مشرف کی مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پٹریاٹ ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں۔
آج وقت آگیا ہے فوج بطور ادارہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے اور سچ مچ کے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جہادی پیدا کرنے کی حکمت عملی سے رجوع کر لے ۔فوج کے سربراہ جنرل باجوہ بھی یہ بات کھلے عام تسلم کر چکے ہیں پاکستان گزشتہ 40 سال کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے ،
صرف حاضر سروس فوجی سربراہ نے خامیوں کو تسلیم نہیں کیا سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عباس اطہر اور جنرل شاہد عزیز بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ماضی کی جہادی حکمت عملیوں پر تنقید کر چکے ہیں ۔
پاکستان میں چار فوجی جنرلوں کی براہ راست حکومت کی سچائی کے سامنے یہ نری حماقت ہے اصرار کیا جائے فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی ۔ تلخ حقیقت اور سچائی یہی ہے پاکستان میں فوج خارجہ اور داخلہ پالیسوں میں ایک اہم شراکت دار ہے اور جو سیاستدان فوج سے یہ شراکت داری آئین کے تحت لینے کی کوشش کرتا ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو بن جاتا ہے ،ایسے بینظر بھٹو کی طرح مرنا ہوتا ہے وہ نواز شریف بنا دیا جاتا ہے ۔یہ فوج ہماری ہے اور ملکی سالمیت کے تحفظ کیلئے اس فوج کو اور ایٹمی اثاثوں کو تحفظ دینے کیلئے مکمل قومی حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے ۔
پتلی تماشے کا عالمی دن یہ تقاضہ کرتا ہے پاکستان میں یہ کھیل کم از کم سیاست کی حد تک ختم کر دیا جائے ۔فوجی حکمت سازوں سے پہاڑ ایسی غلطی ہو گئی ہے اور اس غلطی کی زمہ داری سو فیصد تبدیلی کے حکمت سازوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔جو گھوڑا نیا بتا کرمیدان میں اتارا وہ پرانا تھا اور خیبر پختنوخواہ میں پہلے ریس ہار چکا تھا دوبارہ اس پر داو لگانا ملک کے ساتھ دشمنی تھی اور یہ دشمنی کی گئی ہے ہم اس معاملہ میں خلوص یا ‘ نیت اچھی تھی ‘ کا جواز ہر گز تسلیم نہیں کر سکتے ۔
سیاستدان احمق نہیں وہ کسی قیمت پر فوج کو واپسی کا محفوظ راستہ نہیں دیں گے ۔
سیاستدانوں کو سنہرا موقع ملا ہے اور یہ موقع ہارے ہوئے اور ناکام گھوڑے پر داو لگانے کے نتیجہ میں ملا ہے ۔خارجہ اور داخلہ پالیسی کی بساط پر قیام پاکستان سے لے کر آج تک جو داو کھیلے گئے کامیابی ملی لیکن ثبات صرف تغیر کو ہے ،طاقت ہمیشہ نہیں رہتی ملکی اور بین الاقوامی حالات پسپائی کا تقاضہ کرتے ہیں ۔
میاں نواز شریف کو اقتدار سے باہر کر دیا لیکن ہاتھ کیا آیا ؟ ڈیل ہو جاتی تو بچ نکلے کا امکان تھا لیکن ڈیل نہیں ہوئی شہباز شریف ایسا تابعدار بندہ بھی قابو میں نہیں آیا ۔دوسری غلطی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بے وفائی تھی آصف علی زرادری نے نواز شریف اپریشن میں بھر پور معاونت کی ۔بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی اکثریتی حکومت ختم کرنے میں مدد دی ،چیرمین سینٹ کے انتخابات میں اپنا کاندھا فراہم کیا لیکن اپنے گھوڑے کو بچانے کیلئے تمام پیادے مروا لئے ۔
فوج کے پاس کوئی حلیف نہیں بچا مولانا فضل الرحمن کو ہاتھ سے کھو دیا ۔مولوی خادم حیسن ،مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کی قربانی دینا پڑی ۔محمود اچکزئی کو ملک دشمن بنا دیا ،اسفند یار ولی کو حریف بنا لیا اور تو اور آفتاب شیر پاو ایسے حلیف کا نقصان بھی برداشت کر لیا ۔
عوام کسی نہ کسی سیاسی جماعت مذہبی لسانی تنظیم یا قوم پرست راہمناوں کے پیچھے ہوتے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ نے تاریخی غلطی کی ہے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دئے اور تمام سیاسی جماعتوں ،مذہبی لسانی اور قوم پرست راہنماوں کی حمایت نہیں کھوئی ان کے پیچھے چلنے والے عوام کی مخالفت بھی مول لے لی ۔
گھورا پھر ہار گیا ہے یہ جیتنے والا کبھی تھا ہی نہیں ،عدالتوں اور میڈیا کے زریعے ماضی میں کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی اور دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ہوتا تھا ۔آج ماضی کی طرح کامیابی ممکن نہیں ۔ناکام گھوڑے کی ناکامیوں کی داستان نے ہمیشہ کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ہی کمزور نہیں کیا اداروں کے بھی کان کھڑے کر دئے ہیں ۔اب لاہور ہائی کورٹ کے جج کھلی عدالت میں سابق چیف جسٹس کا ٹھٹھہ لگاتے ہیں ۔اب بے شمار مقدمات اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے باوجود بلاول بھٹو نواز شریف سے ملاقات کیلئے چلے جاتے ہیں اس سے پہلے یہ کھیل کسی اسے مرحلہ تک پہنچ جائے جو ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو کھیل روک دیا جائے ۔
نیا سوشل کنتریکٹ کر لیا جائے ملک بچا لیا جائے ۔چند ٹی وی اینکرز سیاستدانوں کی کرپشن کی داستانوں کے ساتھ ریلیف نہیں دے سکے ۔عدالتی فیصلوں کے زریعے سیاستدانوں کو من پسند ڈیل پر مجبور نہیں کیا جا سکا ۔یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے معیشت تباہ ہو رہی ہے اور ملک دشمن قوتین طاق میں ہیں ۔آج امریکی وزیرخارجہ ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دے رہا ہے آج بھارتی کمزور معیشت سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں ۔ناکام گھوڑے پر مزید داو لگانا محض حماقت ہو گی ۔جس قدر جلد ملک کو موجودہ سیاسی بے یقینی اور معاشی ابتری سے نکال لیا جائے اچھا ہے ۔وقت تیزی کے ساتھ کم ہو رہا ہے ہر آنے والا دن مزید معاشی خرابیون کی نوید لائے گا قومی یکجہتی کیلئے درکار اقدامات کر لئے جائیں اس میں کسی کی فتح یا شکست نہیں ۔ووٹ کو عزت دینے سے اگر وقتی پسپائی ہوتی ہے کر لی جائے اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے ۔