پیٹرول 6روپے مزیدمہنگا ہو گیا ہے، بزنس کمیونٹی چیخ رہی ہے کہ ایک طرف ان کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے تو دوسری طرف ٹیکس اکٹھا کرنے ادارے اُن سے ایک ایک پیسہ نچوڑنے کی کوشش کر رہے ہیںحالانکہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو بار بار مختلف اداروں کی طرف سے ریلیف مل رہا ہے۔روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے اور اس صورتحال میں ایکسپورٹرز بھی پریشان ہیں کیونکہ ایکسپورٹس کے لیے بھی امپورٹس کرنا پڑتی ہیں۔ اگرچہ امپورٹس میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ملکی حالات اور انڈسٹری بند ہونے کے باعث ایکسپورٹ نہیں بڑھ سکیں، اسی وجہ سے مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، بجلی اور گیس سونے جتنی مہنگی ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی کا گزارہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایک طرف معاشی ماہرین اور اسٹیٹ بینک خود کہہ رہے ہیں کہ حالات ناسازگار ہیں تو دوسری جانب وزیرخزانہ اسد عمر اور حماد اظہر کہہ رہے ہیں کہ معیشت میں استحکام آ گیا ہے مگر معاشی ماہرین کی اکثریت ان کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتی، جو کوئی اتفاق کرتا بھی ہے وہ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ مہنگائی کے سبب عام آدمی کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ایک طرف غریبوں کی جھونپڑیوں اور ٹھیلوں کو تجاوزات کے نام پر گرا کر انہیں بے گھر و بیروزگار کیا جا رہا ہے، وہ غریب طبقہ جس کو ریاست اور اس ملک کی اشرافیہ بے دست و پا کر کے غربت میں دبائے رکھتی ہے، اس کو لینڈ مافیا کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے حقیقتاً تجاوزات قائم کر رکھی ہیں، انہیں ریگولرائز کیا جا رہا ہے شاید وہاں اشرافیہ اور اَپر کلاس کا پیسہ ہونے کی وجہ سے ہمدردی زیادہ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہے، ان کی وجہ سے آج ہم ان حالات کا شکار ہیں۔ چلیں! اگر یہ مان بھی لیتےہیں اور اگر آپ نے سارا الزام ماضی کی حکومتوں کے سر ہی تھوپنا ہے تو کیا ان حالات سے نکلنے کا واحد حل عوام کو مزید رگڑنا اور پیسنا ہی ہے؟یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ پسے ہوئے عوام کو اور پیسنے کے لیے کونسی مہارت یا طاقت درکار ہوتی ہے؟عوام ماضی میں بھی پستے رہے اور اب بھی وہی پس رہے ہیں، اس میں آپ کی کیا انفرادیت ہے؟ ٓآپ کا کمال تو تب ہوتا جب آپ عوام کو نقصان پہنچائے بغیر مسائل کا حل نکالتے۔ معاشی حالات کی وجہ سے ہر وقت قربانی کا راگ الاپا جارہا ہے مگر ریاست کے کسی ادارے کے ٹھاٹ بھاٹ میں کوئی کمی نہیںآئی۔قربانی محض عوام نے ہی کیوں دینی ہے؟اگر حالات قربانی مانگ رہے ہیں تو ملکی اشرافیہ بالخصوص جو لوگ حکومت میں شامل ہیں، انہیں قربانی دینے میں پیش پیش ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کہیں نظر نہیں آرہا۔ اب حکومت میں شامل لوگوں کے اپوزیشن دور کے بیانات ہی ان کا پیچھا نہیںچھوڑ رہے۔یہی اسد عمر تھے جو کہتے تھے کہ حکومت پیٹرول پر ناجائز ٹیکس وصول کر رہی ہے، میں پیٹرول سستا کردوں گا اور اسد عمر کا شمار اُن چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اپنی وزارت کا بہت پہلے سے علم تھا۔ کیا اتنے عرصہ میں وہ کوئی حل نہیں نکال سکے کہ جس سے عوام کو شدید ترین مہنگائی اور بیروزگاری کی لہر سے بچایا جا سکتا؟
اگر ان حالات سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا تو کیا اپوزیشن دور میں اتنا عرصہ عوام سے محض اقتدار کے لیے جھوٹ بولا جاتا رہا؟حکومت میں تقریباً 200 دن گزارنے کے بعد بھی ’’فلاں چور‘‘ اور ’’فلاں ڈاکو‘‘ کی باتوں كے علاوہ عوام کا کچھ بھلا نہیں ہوا۔ شاید پالیسی بنانے اور فیصلہ کرنے والے عوام كے مسائل سمجھ ہی نہیں سکتے۔ شاید ہی کوئی چیز یا ایک جگہ ایسی ہو جہاں عام آدمی کہہ سکے كہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد مثبت ’’تبدیلی‘‘ آئی ہے، کہیں پولیس کا رویہ ٹھیک ہو گیا ہے، کہیں رشوت نہ دینا پڑی ہےلیکن یہ تمام معاملات ویسے کے ویسے ہیں۔ سب ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔کرپشن کی بات ہوتی ہے كہ عوام کا پیسہ لوٹا جا رہا ہے لیکن جب عوام کو لوٹے بغیر ہی ان کی زندگی کو اتنا مشکل بنایا جا رہا ہو تو اسے کیا کہا جائے؟ لوگ اب یہ باتیں کر رہے ہیں كہ نواز شریف یا زرداری اگر پی ٹی آئی کے بقول چور تھے تو بھی کم از کم ہمیں ان کی چوری سے اتنا نقصان نہیں ہو رہا تھا مگر موجودہ حکومت کی ایمانداری نے سب برباد کر چھوڑا ہے۔ اگر ’’جان بوجھ کر نہیں، نیت تو صاف ہو گی‘‘ اصول کو مانتے ہوئے، ہم اِس صورتحال کوسخت نااہلی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ اگر نااہل لوگ کسی بھی عہدے پر فائر ہوں تو یہی لوگ اس کو کرپشن کہتے آئے ہیں، تو کیا ان کی اپنی نااہلی کرپشن نہیں ہے؟