دودھ سے مکھی نکل گئی؟

ایک طرف یہودی ‘مسلم کشی کے ظالمانہ اقدامات کا برملا اعترا ف کر رہے ہیں‘ تو دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف صہیونیوں نے اپنی پسپائی کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جارحیت کی کارروائیوں کا جو سلسلہ طویل مدت سے جاری ہے‘ پہلی مرتبہ یہودیوں نے مسلسل جارحیت کا اعتراف کیا ہے‘ لیکن یہ اعتراف روایتی جارحانہ انداز میں کیا گیا ہے۔یہودیوں نے جارحیت کا اعتراف اس طرح کیا کہ ” دودھ سے مکھی نکل گئی‘‘۔یہ اعتراف فلسطین میں جاری طویل جنگ میں پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ یہودیوں کی طرف سے تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف طویل خونریز جنگ میںاسرائیلی جلادوں کو اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی کے بل بوتے پرمستقبل قریب میں ‘ اسرائیل کواپنی کامیابی کی امیدیں پیدا ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف طویل جنگ سے اب صہیونیوںکو اپنے عالمی حامیوں کی مدد کا پختہ یقین ہو چکا ہے اور ان کی جارحیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔مغربی دنیا میں امریکہ واحد ملک ہے‘ جس نے ہر موقع اور ہر سطح پر یہودیوں کی حمایت کی۔ فلسطین میں یہودیوں نے اپنے حامیوں کی مدد میں تیز رفتاری سے اب تک جو ”کامیابیاں‘‘ حاصل کر کے اپنی دانست میں پختہ یقین کر چکے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جو جنگ چھیڑی گئی تھی‘ اب اس کے ” اختتامی لمحات ‘‘قریب آرہے ہیں۔ دودھ سے مکھی نکالنے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا گیا۔امریکہ کے بعد بھارت دنیا کا واحد ملک ہے‘ جو اسلام دشمنی میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

دوسری طرف بھارتی وزیراعظم واجپائی سے لے کر نریندر مودی تک‘ انتہا پسند ہندوئوں کے حوصلے اب تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔واجپائی مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم پورے کرنے میں گہری چالوں سے کام لے رہا تھا‘ لیکن انتہا پسند ہندوئوں کی طرف سے خون ریزی کی مہم میںتیزی شروع ہو چکی ہے۔واجپائی کو وقت سے پہلے اجل نے آلیا اور اب تنگ نظرمودی نے دنیا بھر کے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر ایک عالمگیر مہم کی ابتدا کی۔ابتدائی مراحل میں امریکہ کے ساتھ مسلم دشمن مہم میں شامل ہو کر اس نے عالمی مہم میں اپنا ”حصہ‘‘ ڈالا‘ لیکن مودی کے اپنے گھر ‘یعنی بھارت میں جس طرح مسلم دشمنی کو ہوا دی گئی ‘ اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ دوسری طرف کانگرس متواز ن پالیسی پر چل رہی تھی۔ حالیہ انتخابی مہم میں مودی کے انتہا پسند حامی آخری حدوں کی طرف بڑھنے لگے‘ لیکن مودی کے حوصلے اس وقت پست ہونے لگے‘ جب اسے ریاستی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘لیکن اب پھر مودی نے کمر کس لی ہے۔انتخابات کا اگلا ا مرحلہ آنے والا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کے حمایت یافتہ میڈیا گروپ نے زور شور سے انتخابات میں مودی اور اس کے حواریوں کے لئے کمپئین شرو ع کر دی ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کا ووٹ بینک گیا گزرا نہیں ہے‘ لیکن مودی نے اپنے پہلے دور اقتدار میں جس طرح انتہا پسندی میں شدت پیدا کی ‘اس کی مثال کہیں نہیں ملے گی‘جبکہ کانگرس کے لیڈر راہول گاندھی‘ توازن اور اعتدال کے ساتھ انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔چند روز کی بات رہ گئی ہے‘جب انتخابی نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے‘ تو پتا چل جائے گا کہ مودی کا بھارت میں کیا مستقبل ہے؟ لیکن مودی اور اس کے حواری غنڈہ گردی سے باز نہیں آرہے۔مودی شدت پسندی کو نا صرف ہوا دے رہا ہے‘ بلکہ آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔ لگ یہی رہا ہے کہ مودی کو الیکشن میں منہ کی کھانا پڑے گی اور مسلمانوں پر کئے گئے ظلم و ستم کا حساب برابر کر دیا جائے گا۔

نہتے کشمیری جان ہتھیلیوں پہ رکھ کر مودی اور اس کے حواریوں کے ظلم و ستم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ‘ حق خود اردایت کی جنگ لڑ رہے ہیں‘جو رائیگاں نہیں جائے گی۔ دوسری طرف علی گڑ ھ یونیورسٹی کے نوجوان مسلمان پورے بھارت میں مزاحمتی لہر پیدا کر رہے ہیں؛ اگر مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کی انقلابی مزاحمت کا اندازہ کیا جائے ‘تو اصل صورت حال سامنے آتی ہے۔ چند روز قبل مقبوضہ کشمیر سے آنے والے نوجوانوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ جس بے رحمی سے مودی اور اس کے پٹھووں کی فوج کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں‘ کشمیر کی آزادی یقینی ہو گئی ہے۔ادھر مسلمانوں کے جذبے کی شدت کا اندازہ کریں کہ ننھے منے بچے چھوٹے چھوٹے کنکروں سے مودی‘ اس کے حواریوں اور بھارتی فوج کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔وہ دن زیادہ دور نہیں ر ہ گئے‘ جب یہودیوں اور اس کے حامیوں کے خلاف جومزاحمتی جنگ ہو گی‘ اس کے دوران بھارتی پولیس ہی نہیں‘ افواج بھی‘ مسلمانوں کے ابھرتے ہوئے جذبہ جہاد کے سامنے اپنے حوصلے چھوڑنا شروع کر دیں گے۔

اصل جنگ فلسطین میں لڑی جائے گی ۔ دوسرا مرحلہ مقبوضہ کشمیر میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور یہ جنگ پھیلتے پھیلتے بھارت تک پہنچ جائے گی۔بھارت میں نچلی ذات کے ہندوئوں اور پسماندہ طبقوں میں بغاوتوں کا پھیلنا قرین ِقیاس ہے۔دو وقت کی روٹی او ر بیسیوں وقت کا تشدد ‘بغاوت کی ہمہ جہت لہروں کی یکجائی سے بہت بڑی ہلچل پیدا کرے گا۔اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ کہ ” ہم نے دودھ سے مکھی نکال پھینکی ہے‘‘وقت بتائے گا کہ مکھی کس نے کہاں سے نکالی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے