اس میں کوئی شک نہیں کہ اسد عمر ذہین ترین انسان ہیں لیکن بدقسمتی سے ساری ذہانت صرف اور اپنی صرف اپنی ذات اور اس کی مارکیٹنگ کے لئے بروئے کار لارہے ہیں۔ خوش لباسی اور خوش شکلی کے ساتھ خوش گفتاری کا تڑکہ لگا کر گفتگو ایسی کرتے ہیں کہ منٹوں میں مخاطب ان کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ چونکہ مارکیٹنگ کے میدان کے شہسوار ہیں اس لئے گیدڑ کو شیر اور بکری کو اونٹ ٖبنا کر بیچ سکتے ہیں۔ فوجیوں کے ساتھ فوجی، سیاستدانوں کے ساتھ سیاستدان، مولویوں کے ساتھ مولوی، لبرلز کے ساتھ لبرل، جہادیوں کے ساتھ جہادی اور میڈیا والوں کے ساتھ میڈیا پرسن بن جاتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کی سوچ اور نظریے کے حامی تھے اور نہ عمران احمد خان نیازی سے متاثر۔
ورنہ تو تحریک انصاف کے قیام کے بعد اس میں شامل ہوجاتے لیکن جب انہیں پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تو اپنی ایسی مارکیٹنگ کرادی کہ جیسے جنرل حمید گل مرحوم نے نہیں بلکہ انہوں نے عمران خان کو سیاست کا راستہ دکھایا اور ڈاکٹر فاروق خان مرحوم نے نہیں بلکہ انہوں نے پی ٹی آئی کا دستور تخلیق اور تحریر کیا ہو۔ جہانگیر ترین پیسہ لٹا رہے تھے اور شاہ محمود قریشی کے پاس ووٹ اور تجربے کی دولت تھی۔ اسد عمر ان میں سے کسی صفت کے حامل نہیں لیکن صرف زبان کی طاقت اور درپردہ سازشوں کے ذریعے اپنے آپ کو پارٹی میں ان کا ہم پلہ بنایا۔ کراچی جہاں وہ رہتے ہیں، میں شاید یونین کونسل بھی نہیں جیت سکتے لیکن عمران خان اور ان کے سرپرستوں سے اپنے آپ کو اسلام آباد سے رکن اسمبلی منتخب کروایا۔ عمران خان کے ہاں اپنی اہمیت اس بنیاد پر بڑھاتے رہے کہ ان کے سرپرستوں کے ساتھ قربت ہے اور سرپرستوں کو یہ باور کرا کر اپنی اہمیت بڑھاتے رہے کہ عمران خان ان کی مٹھی میں بند ہے۔ حامی تو کیا عمران خان کے اچھے بھلے نقاد بھی ان کو ماہر معیشت اور پی ٹی آئی کا افلاطون سمجھنے لگے۔
چنانچہ پوری قوم انتظار میں بیٹھی تھی کہ کس دن وزارت خزانہ کا قلمدان اس افلاطون کے ہاتھ میں آئے تاکہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوں۔ البتہ صرف تین بندے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھے۔ جہانگیر ترین، شیریں مزاری اور تیسرا یہ طالب علم۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین معیشت کو اسد عمر سے بہتر سمجھتے ہیں اور بہت پہلے سمجھ گئے تھے کہ یہ شخص اگر نہیں سمجھتا تو معیشت کو نہیں سمجھتا۔ اس لئے وہ کافی عرصہ سے خلوتوں میں عمران خان کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس بندے کی باتوں میں نہ آنا۔ شیریں مزاری کا میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ چند سال قبل انہوں نے ایک نشست میں مجھے اور عرفان صدیقی صاحب کو گھر بلا کر کافی لمبا لیکچر دیا تھا کہ اسد عمر اندر سے کیا ہیں اور پھر اپنی رائے کی تائید میں مجھے اینگرو اور ان کے معاملات سے متعلق کچھ ای میل بھی بھجوائی تھیں۔ اسی طرح میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے چند سال قبل اسد عمر کو سمجھنے کا موقع ملا تھا اور میں اس نتیجے تک پہنچا تھا کہ یہ شخص ماہر معیشت نہیں بلکہ میکاولی اور چانکیا کے فلسفے پر عمل پیرا سیاستدان ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ماہر معیشت کے طور پر پیش ضرور کرتے ہیں لیکن اصلاً مارکیٹنگ کے میدان کے آدمی ہیں اور مارکیٹنگ کرتے ہوئے بھی ان کی توجہ پروڈکٹ پر نہیں بلکہ اپنی ذات کی مارکیٹنگ پر ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے وزیر خزانہ بننے کے بعد بھی ان کی توجہ صرف اور صرف اپنی ذات کی مارکیٹنگ کرنے پر مرکوز رہی اور چونکہ خود کو مسیحا ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ پاکستانی معیشت کا ایسا نقشہ پیش کریں کہ جیسے وہ تو ڈوب رہی تھی لیکن اس مسیحا نے آکر اسے بچا لیا۔ چنانچہ وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ پاکستانیوں اور دنیا کو بتاتے رہے کہ پاکستانی معیشت کا بیڑہ ہر حوالے سے غرق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے اندر بھی پاکستانی معیشت پر سے لوگوں کا یقین اٹھنے لگا اور باہر بھی۔ وزیراعظم کو یہ پٹی بھی شاید انہوں نے پڑھائی کہ انٹرنیشنل فورمز پر جا کر اپنے لوگوں کو کرپٹ ترین اور اپنی معیشت کو تباہ حال قرار دیتے رہیں۔ چنانچہ عالمی اداروں کا اعتماد بھی مجروح ہوا اور ملکی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا بھی۔ پہلے دن سے آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جاتی۔
اب آٹھ ماہ بعد ہمارے افلاطون بتارہے ہیں کہ معیشت آئی سی یو سے نکل کر وارڈ میں منتقل ہو گئی حالانکہ الٹا قوم معاشی حوالوں سے وارڈ سے آئی سی یو میں چلی گئی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کا قد اتنا بلند ہو گیا جتنا کہ شیریں مزاری کے مقابلے میں اسد عمر کا ہے۔ خراب ہوتی معیشت کی وجہ سے کابینہ کے ایک اجلاس میں فواد چوہدری ان سے لڑ پڑتے ہیں تو دوسرے میں فیصل واوڈا۔ میں تو معیشت کو نہیں سمجھتا لیکن شاید اسد عمر سے زیادہ سمجھتا ہوں کیونکہ میں بھی محسوس کر رہا ہوں کہ معیشت تباہ ہو رہی لیکن ان کی نظروں میں بہتر ہورہی ہے۔ میرے گھر کے سوئی گیس کا بل کبھی چار ہزار سے زائد نہیں آیا لیکن گزشتہ ماہ میں نے 37ہزار اور اس ماہ 28ہزار کا بل جمع کروایا۔
جو دوائی میں دو سو کی خریدتا تھا وہ اب میں تین سو پچاس کی خرید رہا ہوں۔ ان حالات میں کیسے کہوں کہ معیشت بہتر ہورہی ہے۔ ان حالات میں معیشت کو بہتر قرار دینے کے لئے عمران خان کا حوصلہ اور اسد عمر کی زبان چاہئے اور ظاہر ہے میرے پاس یہ دونوں نہیں۔ اسد عمر کے سوا ملک میں کوئی ماہر معیشت نہیں کہ جسے معیشت ڈوبتی نظر نہ آرہی ہو۔ پہلے ایشین ڈولپمنٹ بینک نے گواہی دی اور اب اس پر عالمی بینک نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ پاکستان کی معیشت بہتری نہیں بلکہ ابتری کی طرف جا رہی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ میں معیشت کو نہیں سمجھتا لیکن اتنا سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے لوگ معیشت کو اسد عمر سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہم جیسے پی ٹی آئی کے نقاد بھی نہیں۔ گزشتہ پانچ سال انہوں نے عمران خان صاحب کو اقتدار میں لانے اور مسلم لیگ(ن) کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار ثابت کرانے میں اسد عمر سے بھی زیادہ حصہ ڈالا۔ ان خدمات کی بنیاد پر ہی اسد عمر نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی وزارت کے لئے ترجمان مقرر کیا تھا لیکن اب ان کا تجزیہ کیا ہے؟
اس کی ایک جھلک گزشتہ ہفتے روزنامہ ”دی نیوز“ میں ’’Is it wroking‘‘ کے زیرعنوان ان کے آرٹیکل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ڈاکٹر فرخ سلیم لکھتے ہیں کہ اگست 2018میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت دس ارب ڈالر تھی۔ دوست ممالک سے قرض لینے کے بعد وہ پندرہ ارب ڈالر ہونا چاہئے تھی لیکن اس کی مالیت الٹا کم ہوکر 8.1ارب ڈالر رہ گئی۔ اسی طرح اگست 2018میں گردشی قرضہ 1.1کھرب تھا جو اب 1.4کھرب ہو گیا یعنی پی ٹی آئی حکومت نے اس میں 137دنوں میں 260ارب کا اضافہ کیا۔ اسی طرح جولائی تا جنوری 2018کے درمیانی عرصہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری 4.1ارب ڈالر تھی جو جولائی تا جنوری 2019میں کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی۔ اسی طرح پی پی کی حکومت روزانہ پانچ ارب روپے قرض بڑھا رہی تھی۔ مسلم لیگ(ن) اس میں روزانہ 7.7کے حساب سے اضافہ کررہی تھی لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت روزانہ 14ارب روپے قرض لے رہی ہے۔
تبھی تو میں عرض کررہا ہوں کہ ووٹ دینے والے حیران اور گننے والے پریشان ہیں۔ کیونکہ سب سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ ایسا کیسے اور کب تک چلے گا؟