گزشتہ سال مارچ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشہور الفاظ کہے تھے کہ ”تجارتی جنگیں اچھی اور جیتنے میں آسان ہیں‘‘۔ایک سال کے کم عرصے میںدکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ‘ چین کے خلاف تجارتی جنگ میں بری شکست کھا رہا ہے۔
ٹرمپ نے کچھ چینی مصنوعات پر پابندیاں اور اضافی ٹیرف نافذ کر کے چین کو دھمکی دی‘ شایدوہ چین کی معیشت کو ڈبوسکتا ہے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہواکہ چینی ترقی کا معیار2018 ء میںزیادہ نہیں رہا۔اس کی وجہ کریڈٹ کی ترقی کوکم کرنے کے لئے حکومتی کوششیںبھی ہو سکتی ہیں ‘لیکن بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے کاروباری اعتماد کو نقصان پہنچایا اور سرمایہ کاری کو سست روی کا شکا ربنایا۔ چین میں مصنوعات بنانے والی کسی بھی کمپنی کے لیے یہ چیز پریشان کن ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی بدولت‘ ان کی مصنوعات کو امریکہ میں فروخت کرنا مشکل ہے۔تجارتی جنگ میں کثیر مقاصد حاصل کرنے کے لیے چین سے باہر پیداواری کے عمل میں تیزی دیکھنے کو ملی۔امریکہ نے اپنی منصوبہ بندی کو تیز کرنے کے لئے بھی حوصلہ افزائی کی‘اس امریکی فیصلے نے چینی کمپنیوں کو زیادہ محتاط بنا دیا ہے۔
چین کی تشکیل کردہ مصنوعات پرٹیکس لگانے سے امریکی صارفین اور فیکٹریوں کے برابر قیمتوں میں اضافہ ہوا۔عالمی تجارتی ماہرین کے مطابق اقتصادیات کی طرف سے معمولی اضافہ ہر سال دس ارب ڈالر میں امریکی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں چینی تنقید کے اثرات کا اندازہ نہیںلگایا گیا؛اگرچہ امریکہ ‘چین کے ساتھ تجارتی خسارہ چلاتا ہے‘ اس کے باوجود اس ملک میں ابھی بھی ایک سال میں200 بلین ڈالر برآمدات ہیں۔چینی ٹیرف نے بھی امریکی کسانوں کو سختی سے کچلا‘ کیونکہ ان کے ملک نے امریکہ سے سویا بین کی زیادہ تر درآمدات کو روک دیا۔امریکی زرعی برآمدات جو تیزی سے بڑھ رہی تھیں‘ گرنے لگیں۔ فارم آمدنی میں کمی آئی۔ناراض کسانوں نے مدد کے لئے ٹرمپ سے اپیل کی اور انہوں نے براہ راست ادائیگی کے فروغ کے لیے کسانوں کاساتھ دینے کا اعلان کیا‘ لیکن امریکی حکومت کے پاس پائیدار کاروباری نمونہ موجود نہیں ۔ وقت کے ساتھ کسانوں کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ہیں۔ابھی تک کسانوں نے سیاسی طور پر ٹرمپ کو نہیں چھوڑ ا‘ لیکن اسے واضح طور پردھمکی ضرور دی ہے۔
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین خود مختار حکومت کے ذریعے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ جیتنے کے لئے بہتر حیثیت رکھتا ہے‘کیونکہ امریکہ کے جمہوری نظام اور سیاست دانوں کے خلاف اٹھنے والی آوازیں‘چین میں ان کی حکومت کے خلاف کم ہی سننے کو ملتی ہیں۔اس کے علاوہ چین نے حال ہی میں غربت میں پسے عوام کومعاشی بحران سے نکالا اور اس کے رہائشیوں کو زیادہ اچھی مراعات دیں ؛ چونکہ چین اب باقی دنیا کے ساتھ مل رہا ہے۔ سست رفتار 6.5 فیصد سالانہ ترقی 6 یا 5.5 فی صداوسط سے بڑھتی ہے‘ جبکہ زیادہ مقدارغالب امریکی معیشت میں کمی کا مطلب ‘امریکی کمزوری کوبھی واضح کرتی ہے۔
ٹرمپ کے دل کی دھڑکن تیز ہو تی جارہی ہے۔چین کے ساتھ تجارتی فروغ 2018 ء کے آخر میںبڑھا۔ امریکہ کے سب سے بڑے اہداف‘ جو اسے حاصل نہیں ہو رہے۔دانشورانہ اثاثوں کی چوری‘ کرنسی کی خرابی‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور چینی بازار تک رسائی شامل ہیں۔ امریکہ کی طرف سے تعاون مانگا گیا۔لازمی طور پر چین مزید امریکی فارم کی مصنوعات اور چند برآمدات خریدے گا‘ یوں ٹرمپ واپس راستے پر آ جائیں گے۔ٹرمپ انتظامیہ کے لئے ایک حتمی شکست کی طرح کئی معاہدے نظر آتے ہیں۔دریں اثناء نشانیاں موجود ہیں کہ چین کی معیشت سست رفتار سے کم ہو گئی ہے‘ کیونکہ حکومت نے کچھ تازہ محرکات کو مسترد کیا‘لیکن ٹیرف کی تجارتی جنگ کے کئی پہلو ہیں؛اگرچہ یہ عوامی آنکھوں سے کچھ کم دکھائی دیتا ہے‘ تاہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کے مستقبل کو کنٹرول کرنے کے لئے جدوجہد‘ امریکی اور چین کے درمیان معاشی طاقت کے توازن کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں چین کے معروف ٹیلی کمیونی کیشن کارخانہ دار ہواوے ٹیکنالوجی کمپنی پر دباؤ ڈالا۔اس نے امریکی اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے کہ وہ کمپنی سے 5 جی وائرلیس ٹیکنالوجی نہ خریدیں۔امریکی سلامتی کے ادارے پریشان ہیں کہ ہواوے کی 5 جی مصنوعات دنیا بھر میں مواصلات پر جاسوسی کرنے کے قابل ہو ں گی‘ لیکن اس کوشش میں اسے ایک بڑا دھچکا لگا۔
جرمنی نے حال ہی میں کہا کہ وہ ہواوے مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرے گا۔اس دوران امریکہ نے بہت سی ٹیکنالوجی کی مصنوعات پر برآمدی کنٹرول پر عمل درآمد کیا۔یہ بات سچ بھی ہے بہت سے چینی مینوفیکچررز جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر کچھ چینی سرکٹ سازوں نے امریکی ساختہ سیمکولیڈرز پر بھروسہ کیا ہے۔برآمد کنندگان کو مختصر مدت میں چینی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘ لیکن طویل عرصے میں چین اس بات پر زور دے سکتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں تیز رفتاری لائے اور امریکی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھنے سے روکے ؛اگر چین ایک تکنیکی ساتھی بن جاتا ہے‘ تو 1970ء سے 1980ء کے عشروں کی طرح جاپانی کمپنیوں کی طرز پر امریکیوں کے ساتھ زیادہ براہ راست مقابلہ کرنا شروع کر دے گا۔
ٹرمپ کی تجارتی جنگ تمام محاذوں پر شرمناک لگ رہی ہے۔ان کو زبردست حملوں نے کچھ نقصان پہنچایا ‘لیکن چین اس کی نسبت امریکہ کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ ٹرمپ کے لیے تجارت کی جنگوں کو جیتنا آسان نہیں ۔