تحریک حریت کشمیر: فرض عین سے تعزیت تک

یوں تو بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ظلم و ستم کی خبریں آنا معمول کی بات ہوگئی ہے، آئے روز جبر و تشدد کی ایک نئی داستان سننے کو ملتی ہے مگر جب سے حریت لیڈر یاسین ملک کی ناسازی طبع اور تشویشناک حالت کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تو طبیعت میں شدید اضطراب پیدا ہونے لگا ، سینکڑوں سوالات ذہن کی دیواروں سے ٹکراتے اور اطمینان بخش جواب نہ پاکر لوٹ جاتے، بیسیوں مرتبہ یہ کوشش کی قرطاس وقلم کا سہارا لیا جائے ، مقبوضہ وادی میں بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم اور آزادی کے بیس کیمپ کے کردار پر لکھا جائے مگر اس پر کیا نیا لکھا جائے ، وہی روایتی رسمی باتیں، وہی جملے کہ "ریاست جموں کشمیر کی غلامی کی تاریخ بہت طویل ہے۔طویل عرصے سے کشمیر بھارت سامراج کے مختلف النوع ظلم و استبداد کی چکی میں پس رہی ہے مگر کشمیری جھکے نہیں، کشمیریوں نے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے ،قربانیوں کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے، تحریک اپنے عروج پر ہے اور بھارتی سامراج کے ظلم و استبداد کی ناکامی الم نشرح ہے ۔عالمی ضمیر مردہ ہوچکا ہے، عالمی برادری کو بھارت پر دبائو ڈالنا چاہیے اور اقوام متحدہ کو کشمیر سے متعلق قراردادوں پر عملدرآمد کرانا چاہیے ".
یہی وہ روایتی جملے ہیں جو بھارتی ظلم و ستم کے خلاف میں نے بچپن سے اب تک سنے ہیں، یہی مجھے تحریروں میں پڑھنے کو ملے ہیں اور یہی آزادی کے بیس کیمپ کی قیادت کی زبان پر ہوتے ہیں۔

میں نے حریت لیڈر یاسین ملک کی ناسازی طبع اور دیگر حریت پسند قیادت پر بھارت کے بڑھتے ہوئے مظالم پر جب لکھنے کی کوشش کی تو میرے ذہن میں بھی یہی روایتی جملے گردش رہتے ہیں ، پھر میں نے خود کو وقت دیا اور اپنی امید سے ہٹ کر انتظار کرتا رہا کہ آزادی کے بیس کیمپ سے ہوسکتا ہے اب کی بار کوئی مختلف ردعمل آئے مگر میری امید سے ہٹ کر مجھے کچھ نظر نہ آیا، روایتی رد عمل چند بیانات، یاسین ملک کی اہلیہ کی پریس کانفرنس، دفتر خارجہ کی مزمت، اور لبریشن فرنٹ کا احتجاج اور پھر فرض پورا سمجھ کر اپنے کام کاج میں مگن۔

جمعہ کو جب لبریشن فرنٹ کا اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا دو روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ ختم ہوا تو میں نے لبریشن فرنٹ کے رہنما رفیق ڈار سے اسی متعلق پوچھا کہ آپ تو لبریشن فرنٹ کے رہنما ہیں ، آپ نے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دو روزہ احتجاجی کیمپ کافی ہے اور کیا آزادی کے بیس کیمپ سے بھارتی مظالم کے خلاف اٹھنے والی آواز پر مطمئن ہیں؟ رفیق ڈار صاحب نے اپنے احتجاج سے متعلق بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ہم نے کراچی میں بھی احتجاج کیا اور آزاد کشمیر میں بھی لیکن آزاد کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اظہار یکجہتی کے لیے تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان تشریف لائے مگر آزاد کشمیر سے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج صرف بیانات کی حد تک ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔

میں نے رفیق ڈار صاحب سے پھر سوال کیا کہ آپ نے کہا تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان آپ کے کیمپ میں اظہار یکجہتی کے لیے آئے، کیا ان تمام سیاسی جماعتوں میں آزاد کشمیر کی برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن)بھی شامل ہے؟ ڈار صاحب نے جواب دیا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر اظہار یکجہتی کے لیے آنا چاہتے تھے لیکن وہ لاہور چلے گے ، انہوں نے ٹیلیفونک اظہار یکجہتی کی ہے،ڈار صاحب کا یہ جواب سن کر مجھے مزید سوال کرنے کی جستجو نہ رہی اور بہت دیر تک میں یہ سوچتا رہا کہ ہم آئے روز بھارتی مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی پر اسے کوستے ہیں اور کہتے ہیں کہ عالمی برادری کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے تو یہی مان لیتے ہیں کہ عالمی برادری کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے مگر ہمارا ضمیر کتنا زندہ ہے؟ ہم سے زیادہ بے حس کون ہے؟ آزادی کے بیس کیمپ میں کرسی اقتدار پر بیٹھے ہمارے وزیراعظم صاحب اگر دو بیانات دے کر اپنا فرض پورا سمجھتے ہیں، لاہور جانے کے لیے ان کے پاس وقت ہوتا مگر بھارتی مظالم کے خلاف کسی احتجاجی کیمپ میں دو پل کی شرکت کے لیے، اظہار یکجہتی کے لیے وقت انہیں میسر نہیں آتا تو عالمی برادری کیوں ہمارے حق میں آواز بلند کرے؟

آزادی کی اس تحریک کو پہلے فرض عین کی حیثیت حاصل تھی اور ہر زبان ہر موڑ پر اس کی تشہیر کرنا ضروری سمجھتی تھی۔ پھر فرض کفایا ہوئی اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان ایک بیان دیکر پارٹی کا فرض ادا کر دیتے تھے۔ اب بات تعزیت تک آ چکی ہے فون پر تعزیت اور خریت دریافت کر کے اپنی ذمہ داری کو مکمل سمجھا جاتا ہے۔ آئندہ کیا صورتحال ہو گی یہ وقت ہی بتائے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے بھارتی مظالم کے خلاف آزاد کے بیس کیمپ میں حکومتی سطح پر شہر شہر احتجاج ہوتے، تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر بھارتی بربریت کے خلاف،حریت قیادت کے حق میں آواز بلند کرتی میڈیا کوریج ہوتی عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی جاتی مگر اپنی تمام تر توانائیاں، صلاحتیں، ریاضتیں، لیلائے اقتدار کے گیسو سنوارنے میں صرف کرنے والی بیس کیمپ کی قیادت کے پاس وقت ہی میسر ہی نہیں ۔

اقتدار کی زلف گرہ گیر کے اسیر بیس کیمپ کی قیادت کے پاس اول تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی رول ہی نہیں اور بیس کیمپ میں بیٹھ کر جو آواز بلند کی جاسکتی ہے، وہ آواز انہیں اقتدار کی لالچ اور زر کی طلب بلند نہیں کرنے دیتی اور جو ٹوٹے پھوٹے دو جملے بھارتی مظالم کے خلاف بولے جاتے ہیں وہ بھی اپنی سیاست بچانے کے لیے بولے جاتے ہیں ۔یہ حال ہمارا ہے اور کوستے ہم عالمی برادری کو ہیں عالمی برادری ہمارے حق میں آواز نہیں اٹھاتی۔

اب اگر بات حکومت پاکستان کی بات کی جائے تو حکومت پاکستان نے بھی روایتی انداز ہی اپنایا ہوا ہے،مذمتی بیان جاری کرنا ،حکومت پاکستان کو چاہیے کہ آزاد کشمیر حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے رول دے اور پشت پناہی کرے تاکہ دنیا کشمیر کی کہانی کشمیریوں کی زبانی سنے، کشمیری اپنا مقدمہ خود لڑ سکیں۔راویتی مذمتی بیانات سے ہٹ کر عملی اور ترجیحی بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کام کیا جائے تاکہ کشمیریوں زندگی کی امید لگ سکے تبھی پاکستان سے کشمیر کے رشتے کے دعوی کی لاج رکھی جاسکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے