امریکہ، برازیل، کینیڈا، کولمبیا، میکسیکو، بنگلہ دیش،پاکستان، ملائشیا،تھائی لینڈ، افریقا، یورپی ممالک، لیبیا، مصر سمیت دنیا کے تقریبا اس ۸۰ ممالک میں یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے. اس دن کو مزدوروں کے دن کے طور پر منانے کا سبب یہ ہے کہ سن ۱۸۸۴ میں امریکہ کے شہر شکاگو کی "ھیے مارکیٹ سکئیر” میں ورکرز کے لئے روزانہ آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرانے اور اپنی آزادی اور بنیادی حقوق کے لئے اک ریلی نکالی گئی. اس ریلی پر پولیس نے فائرنگ کی اور بہت سے ورکرز کو موت کے گھاٹ اتار دیا. اس قتل عام کے نتیجے میں ایک نامعلوم شخص نے پولیس پر ڈائنامائٹ پھینکا جس کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے. ان شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لیبر ڈے منایا جاتا ہے. اس کو باقاعدہ لیبر ڈے کا خطاب برسلز میں منعقدہ ایک میٹنگ کے دوران دیا گیا.
سن ۱۸۹۱ میں سیکنڈ انٹرنیشنل سوشلسٹ لیبر کانفرنس میٹنگ کے دوران اس دن کو منانے کے لئے "مئی ڈے” کا خطاب ملا. ۱۹۹۵ میں کیتھولک چرچ نے یکم مئی کو حضرت عیسی علیہ السلام اور اس کے حواریوں کی یاد کے لئے مختص کرلیا. الغرض اگر ہم یکم مئی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں اس دن کے حوالے سے کسی نہ کسی یاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے. تاہم زیادہ تر ممالک میں یہ دن "لیبر ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے.
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی "یوم مزدور” پورے زور وشور سے منایا جاتا ہے. اس دن کو ملک بھر میں مزدوروں کے حق میں کانفرنسز، سیمینارز اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جگہ جگہ ریلیاں نکالی جاتی ہیں. ٹیلیوژن پر ٹاک شوز ہوتے ہیں جہاں پر اینکرز اور دیگر شرکاء برانڈڈ مصنوعات زیب تن کرکے ائیر کنڈیشن کے یخ بستہ ماحول میں بیٹھ کر مزروروں کے حق میں پروگرام کرتے ہیں اور نوٹ کھری کرتے ہیں. ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے سوائے مزدوروں کے.
پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز سن ۱۹۷۲ میں ہوا اور یکم مئی کو آفیشلی مزدور ڈے کا خطاب دیا گیا.
پاکستان باضابطہ طور پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا رکن ہے جس کا مقصد مزدوروں کو ان کے حقوق فراہم کرنا اور ان کو اپنے حقوق سے آگاہ کرنا ہے.
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ پورے سال کو چھوڑ کر صرف یکم مئی کو ہمیں مزدور یاد آجاتے ہیں. اس دن ہر غیر مزدور شخص دل کھول کر مزدور کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار کرکے اس کے جذبات کا مذاق اڑاتا ہے. میڈیا پرسنز اور سیاسی شعبدہ باز مزدوروں کے حقوق پر بحث کرتے ہیں اور لمبے چھوڑے لیکچر دے کر اپنا بیکار اور عوام کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں. ہر ایک اس تماشے میں حصہ بقدر جثہ شامل ہوتا ہے. اس کے اگلے دن اللہ اللہ خیر صلا.
اسلام نے مزدور کے حقوق پر بہت زور دیا ہے. چنانچہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو. دوسری جگہ فرمایا” محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے” . نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اللہ کے ان دوستوں کے ساتھ ہمارا سلوک انتہائی غیر منصفانہ اور انسانیت واخلاق کے کسی بھی پیمانے پر پورا اترنے والا نہیں ہوتا. ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایک مزدور سے تین مزدوروں کے برابر کام لیں جبکہ اسے مزدوری دیتے وقت ہمیں موت پڑتی ہے. ہم خود عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں، چمکیلی گاڑیوں میں گھومتے ہیں امپورٹڈ اور برانڈڈ مصنوعات استعمال کرتے ہیں. جنک فوڈ اور فاسٹ فوڈز کھاتے ہیں. ہمارے بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں. اس کے مقابلے میں ہم جن کے نام پر چھٹی منارہے ہوتے ہیں انکی حالت زار بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں. پیوند لگے کپڑے، پھٹے پرانے جوتے، چہرے اور ہاتھ پاؤں کے تلووں پر یکساں جھریاں، بوسیدہ جھونپڑیوں میں رہنے والے، جن کے بچے مرجھائے کملائے ہوئے، یاس و آزردگی کی مجسم تصویر ہوتے ہیں.
ذرا غور فرمائیے! ہمارے نوجوان آج بھی ہاتھوں میں ڈگریاں لیکر دفتروں کے دھکے کھاتے پھررہے ہوتے ہیں. معمولی سے معمولی پوسٹ کے لئے لاکھوں امیدوار دوڑے چلے آتے ہیں. معمولی سی اجرت پر بہت سے لوگ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک لگے رہتے ہیں اور جوانی کے قیمتی سال برباد کر رہے ہوتے ہیں جب کہ اس ملک کے کرتا دھرتا انہی نوجوانوں کے خون پسینے کی سیج پر اپنے خوابوں کے شیش محل تعمیر کررہے ہوتے ہیں.
میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یوم مزدور پر کم از کم ایک ایک مزدور کے گھر چلے جائیں، ان کے ماتھے کا پسینہ پونچھیں، ان کو گلے لگالیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو سلام پیش کریں اور اگر ہوسکے تو کم از کم ایک دن کا راشن ان کے گھر ڈال دیں. یہ کرلیا تو مانو یوم مزدور کا حق ادا ہوگیا.